یہ چند برس پہلے کا واقعہ ہے، میرے خالو اور خالہ اپنی بیٹی شازیہ کی شادی
کے سلسلے میں خاصے پریشان تھے۔ میری کزن، خوش شکل، تعلیم یافتہ اورہراعتبار سے اچھی تھی، اس کے کئی رشتے آئے، مگر بات نہیں بن پارہی تھی۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے، تو کسی نے خالہ کو شادی دفتر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے کئی جگہ رجسٹریشن کروائی، جہاں فیس کے نام پر کافی رقمیں بھی بٹوری گئیں، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ والدین کی پریشانی کی وجہ سے میری کزن، شازیہ خاموش رہنے لگی تھی۔ خالہ اور خالو نے اس کے جہیز کا تقریباً سارا سامان تیار کرکے رکھا ہوا تھا۔ ان کا خیال تھا، اچھا رشتے ملتے ہی شادی کی تاریخ پکّی کردیں گے۔ دو سال بیت چکے تھے، کپڑوں کا فیشن بدل رہا تھا، شازیہ اس صورتِ حال سے بددل ہوگئی تھی، شادی کے اخراجات کے لیے بینک میں رکھی گئی رقم بھی جب میرج بیورو کی نذر ہونے لگی، تو اس نے اپنی ماں کو شادی دفاتر کے چکّر کاٹنے اور مزید رقم ضائع کرنے سے منع کردیا۔ خالہ خود بھی میرج بیورو کی لوٹ مار سے تنگ آچکی تھیں، اس لیے یہ سلسلہ رک گیا۔ پھر ایک روز اخبار پڑھتے ہوئے خالہ کی نظر ’’ضرورتِ رشتہ‘‘ کے ایک اشتہار پر پڑی۔ جس میں فیس کے نام پرلکھا تھا کہ ’’رشتہ ہوجانے کی صورت میں خوشی سے جو دیں گے، قبول کرلیا جائے گا۔‘‘ اشتہار پڑھتے ہی خالہ نے فوراً دیئے گئے نمبر پر فون کیا، تو دوسری طرف ایک خاتون نے خوش اخلاقی سے سلام کا جواب دیا۔ مختصر تعارف کے بعد خالہ جی نے اپنا مدعا بیان کیا،
تو ان خاتون نے اپنا نام مسز شاہدہ ترمذی بتاتے ہوئے کہا کہ ’’میں فی سبیل اللہ یہ کام کرتی ہوں، کوئی فیس وغیرہ نہیں لیتی، رشتہ طے ہوجانے کی صورت میں دفتری اخراجات کے لیے صرف معمولی سی رقم لیتی ہوں۔‘‘ ان کی خوش اخلاقی سے متاثر ہوکر خالہ نے اپنے مالی حالات سمیت دیگر حالات بھی گوش گزار کردیئے کہ کس طرح بیٹی کے لیے اچھے رشتے کی تلاش میں دو سال سے مختلف میرج بیوروز پرہزاروں روپے لٹا چکی ہیں، لیکن اب تک کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں ملا۔ خالہ کی دکھ بھری باتیں سننے کے بعد مسز شاہدہ ترمذی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’اگر دو سال سے بچّی کے رشتے کے سلسلے میں آپ کو کام یابی نہیں حاصل ہوئی، تو مجھے کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے کہ خدا نہ خواستہ کسی نے آپ کی بیٹی کے رشتے میں بندش تو نہیں کروا دی ہے؟‘‘ان کی باتوں سے خالہ پریشان ہوگئیں اور پوچھ بیٹھیں کہ ’’اگر ایسا ہوا، تو آپ کیسے اس معاملے کی کھوج لگا سکتی ہیں؟‘‘ مسز شاہدہ نے کہا ’’دراصل، میرے پاس ایسے بہت سے کیسز آتے رہتے ہیں۔ جب بھی میرے پاس رشتے کے لیے کوئی ایسی فیملی آتی ہے، جو کوشش کے باوجود اپنی بچّی کا رشتہ نہیں کرپاتی، تو میں مشورہ دیتی ہوں کہ پہلے اس کی بندش کا کھوج لگوالیں۔ کیوں کہ ایسی صورت میں میری کوششیں بھی ناکام ثابت ہوسکتی ہیں، آپ کو بھی میرا مشورہ یہی ہے کہ پہلے اس بات کا پتا کروالیں کہ کہیں بچّی کے رشتے میں کسی نے بندش تو نہیں کی ہوئی ہے۔‘‘’’خالہ سوچ میں پڑگئیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں چوں کہ اس فیلڈ میں ایک عرصے سے کام کررہی ہوں، ایک دو عاملوں کو جانتی ہوں، آپ کہیں، تو
اس معاملے میں آپ کی مدد کرسکتی ہوں۔‘‘ خالہ نے فوراً ہامی بھرلی، تو مسز شاہدہ نے انہیں ایک پیر بابا کا رابطہ نمبر اور پتا بتادیا، جو ان کے بقول ان کے دفتر میں رشتے کے لیے آنے والی بہت سی فیملیز کی مدد کرچکے تھے۔ خالہ بہت خوش ہوئیں۔ مسز شاہدہ نے خلوص سے کہا کہ ’’پہلے یہ بندش ہٹوالیں، پھرکسی اچھی جگہ بچّی کا رشتہ طے کروادوں گی۔‘‘ شام کو خالو گھر آئے، تو خالہ نے یہ بات انہیں بتائی، خالو بھی بیٹی کی محبت میں فوراً آمادہ ہوگئے اور اگلے ہی روز دونوں میاں بیوی، مسز شاہدہ کے بتائے ہوئے پتے پر عامل کےآستانےتک پہنچ گئے۔ وہاں لوگوں کا رش دیکھ کر دونوں بہت متاثر ہوئے، وہ بھی حاجت مندوں کی لمبی قطار میں شامل ہوگئے۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد ان کی باری آئی۔ پیر عامل بابا، متاثر کن شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے خالہ اور خالو کی پریشانی بڑی ہم دردی سے سنی، چند سوالات کیے، پھر دس پندرہ منٹ کے مراقبے کے بعد اپنے چیلے کو بلایا اور اس کے کان میں کچھ کہا۔ وہ باہر چلا گیا، تو پیر بابا نے خالو سے کہا ’’آپ کی بیٹی پر خاندان کے کسی قریبی عزیز نے سخت بندش کی ہوئی ہے، اس کے اتار میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں، آپ باہر جائیں، باقی معاملات میرے چیلے سے پوچھ لیں، اسے میں نے سب کچھ سمجھا دیا ہے۔‘‘ خالہ اور خالو ان کا شکریہ ادا کرکے باہر آگئے۔ چیلے صاحب، ان کے انتظار میں باہر ہی کھڑے تھے۔ اس نے کہا ’’پیر بابا سخت بندشوں کے کیس اب اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے، کیوں کہ اس کے توڑ میں انہیں شدید محنت کرنی پڑتی ہے، آپ خوش نصیب ہیں کہ
آپ کے لیے وہ راضی ہوگئے ہیں۔‘‘ خالو نے پوچھا ’’اس کام کا ہدیہ کتنا ہوگا۔‘‘ چیلے نے کہا ’’بابا نےمجھے ہدایت کی ہے کہ آپ سے کم سے کم ہدیہ لیا جائے، ویسے تو اس عمل میں تقریباً بیس پچیس ہزار روپے کا خرچا ہوتا ہے، لیکن آپ سے صرف پندرہ ہزار روپے لیے جائیں گے۔اگر آپ دو روز کے اندر یہ رقم لے کر آجائیں گے، تو میںپیربابا سے سفارش کرکے چند روز میں یہ کام کروادوں گا، بہ صورتِ دیگر بات مہینوں تک ٹل سکتی ہے، کیوں کہ پیرصاحب کے پاس حاجت مندوں کی لائنیں لگی رہتی ہیں۔‘‘ خالو پریشان ہوگئے، مگر بہرحال بیٹی کے لیے کچھ تو کرنا تھا، گھر آکر رقم جمع کرنے کے لیے جوڑ توڑ میں لگ گئے اور اپنے ایک دوست سے پندرہ ہزار روپے ادھار لے کر اگلے روز پیر صاحب کے پاس جانے کا ارادہ کرلیاکہ اچانک ملتان سے فون آگیا کہ ان کی بہن کی طبیعت سخت خراب ہوگئی ہے، وہ عرصے سے بیمار تھیں، حالت بگڑنے پر انہیں اطلاع دی گئی تھی، لہٰذا ان کا وہاںجانا ضروری ہوگیا ، تو اس ہنگامی صورتِ حال میں وہ یہ سوچ کرکہ واپس آکر چیلے سے بات کرلیں گے، اس رقم سے ملتان کے لیے روانہ ہوگئے۔ ملتان میں انہیں ایک ہفتہ رکنا پڑا۔پھر بہن کی حالت سنبھلنے پراپنے قریبی عزیز سے کچھ رقم ادھار لے کر واپس آگئےتاکہ سب سے پہلے پیر بابا والا کام نمٹا سکیں۔ گھر آکر انہوں نےیہ سوچ کر فون کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ بہن کی بیماری کے بارے میں بتائیں گے، تو وہ یقیناً نرمی برتیں گے اور بندش کا توڑ جلدی کرنے پر رضا مند ہوجائیں گے۔ اگلے روز وہ دونوں میاں بیوی نذرانے کی رقم لے کر پیر بابا کے آستانے کے قریب پہنچے، تووہاںعجیب ہی نظارہ تھا۔
پیر بابا کے گھر کے دروازے کے آگے پولیس والے کھڑے تھے،چند ہی لمحوں بعد پیر بابا ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنے سپاہیوں کے ساتھ باہر نکلتے دکھائی دیے۔ یہ تماشا دیکھنے کے لیے اس جگہ لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھاتھا، جس میں یقیناً ان کے مرید اور حاجت مند بھی شامل ہوں گے۔ پیر صاحب کو پولیس والےوین میں بٹھانے لگے، تو دولیڈی پولیس اہل کار، ایک عورت کوبھی اسی گھر سے اپنے جلو میں لے کرباہر آئیں۔خالو ششدر رہ گئے۔انہوں نے لاحول پڑھی اور اس ڈھونگی بابا پر لعنت بھیجی، اس دوران وہاں موجود خواتین سے پوچھ گچھ کے بعد خالہ ہانپتی کانپتی خالو کے پاس آئیںاور خالو سے کہا ’’اللہ نے ہماری مدد کی ہے، دراصل میرج بیورو چلانے والی خاتون اور پیر بابا دونوں میاں بیوی ہیں اور ایک سال سے یہ دھندا کررہے ہیں۔ میرج بیورو آفس کھول کر یہ خاتون، لوگوں کو بندش کے نام پر ڈرا کر پہلے بندش تڑوانے کا مشورہ دیتی، پھر اپنے شوہر کے پاس بھیج دیتی ہیں، جہاں رشتے کی بندش توڑنے کی ڈرامے بازیاں کرکے والدین سے لمبی لمبی رقوم بٹوری جاتی ہیں۔ اس بار وہ کسی پولیس والے کی بیوی کو بے وقوف بنارہے تھے کہ شک ہوجانے پر اس نے اپنے شوہر کے ذریعے ان کی تفتیش کروا کر انہیں پکڑوادیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان ٹھگوں کے ہاتھوں لٹنے سے بال بال بچالیا ہے۔‘‘ خالہ اور خالو، ’’جان بچی سو لاکھوں پائے‘‘ کے مصداق اللہ کا شکر ادا کرتے لوٹ آئے کہ کس طرح بہن کی بیماری پر انہیں فوراً ملتان جانا پڑا، ورنہ اگلے روز وہ رقم ان فراڈیوں کے جیب میں جانے والی تھی۔اس واقعے کے دو ہفتے بعد ہی ملتان سے خالہ کی بیٹی کے لیے ان کے دور کے عزیزوں نے ایک رشتہ بھجوایا، جس کی چھان بین کی بھی ضرورت نہیں پڑی، کیوں کہ وہ عزیز انہیں برسہا برس سے جانتے تھے، دو ماہ بعد شازیہ کی وہاں شادی ہوگئی اور اب وہ نہایت خوش خرم ازدواجی زندگی بسر کررہی ہے