تین مہینے ہونے والے تھے علینا اپنے ہم جماعت کے ساتھ زاہد کے ساتھ ایک کرائے کے مکان میں رہتی تھی صبح دونوں اکٹھے یونیورسٹی جاتے تھے اور اکٹھے ہی واپس آتے تھے اس سے پہلے وہ اپنی یونیورسٹی کے ایک گرلز ہاسٹل میں رہتی تھی مگر زاہد کی محبت میں گرفتار ہو کر وہ اس کے بغیر نکاح کی بیوی کا کردار ادا کر رہی تھی جسے عام زبان پر گرل فرینڈ بھی کہتے ہیں۔ علینا کے والدین کو اس بات کا اندازہ تک نہیں تھا کہ جس علیناپر وہ آنکھ بند کر کر بھروسہ کر رہے ہیں۔ وہ ایسے لڑکے کے لیے ان کی کمر میں چھرا گھونپ رہی ہے جس سے ملے اسے چھ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے۔
اور رات کو روزانہ زاہد کے دوست بھی آجا یا کر تے تھے اور علینا جس نے کبھی اپنے بھائی کو پانی کا گلاس نہیں پکڑ ایا تھا۔ وہ زاہد کے ساتھ ساتھ ا س کے دوستوں کا بھی خیال رکھتی تھی ان کو پکا کر دیتی تھی ان کی خدمت کر تی تھی صرف زاہد کی محبت کے پیچھے وہ زاہد کی محبت میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ اس کو اچھے اور برے کی تمیز ہی نہ رہی تھی وہ سمجھتی تھی کہ یہ جو ہو ر ہا ہے یہ سب ٹھیک ہے اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے ۔ یہ سب وہ اس لیے صحیح سمجھتی تھی کیونکہ وہ زاہد کی محبت میں اندھی ہو چکی تھی ۔ اور چاہتی تھی کہ اس کی شادی زاہد سے ہی ہو جائے مگر اس کو پتہ تھا کہ اس کے جو والدین ہیں۔
وہ اس کے رشتے پر راضی نہیں ہوں گے۔ وہ زاہد کے دوستوں کو سالن روٹیاں اور چائے پکا کر بھی دیتی تھی علینا کی کچھ ہم جماعت لڑکیوں نے بھی اسے سمجھا یا تا کہ یہ سب غلط ہے اس طرح اپنے ماں باپ کے بھروسے کو نہ توڑو اور اس طرح اپنی عزت خراب مت کرو۔ مگر اس نے اپنی دوستوں کی بھی ایک نہ سنی مگر علینا انہیں یہ کہہ کر خاموش کر دیتی کہ میری زندگی ہے میں جو بھی کروں میری مرضی تمہیں کیا۔۔ تین سال گزر چکے تھے اس دوران علینا نے بہت بار کہا زاہد کو کہ ہم نکاح کر لیتے ہیں مگر زاہد ہر بار ہی ٹال دیتا تھا۔ تو اسی طرح ہی سب کچھ ہی چلتا رہا۔ علینا نے بہت ہی چالاکی کا مظاہرہ کیا کہ اپنے والدین کو اس کی ذرا بھی بھنک نہ پڑنے دی۔ علینا امید سے ہو چکی تھی جب اس نے زاہد کو بتا یا تو وہ چونک سا گیا تھا۔
زاہد کو یہ سب سن کر غصہ آگیا تھا دو دن گزر گئے تھے علینا سے زاہد نے بات تک نہیں کی تھی ۔ وہ شخص جو دن رات محبت کے نغمے گا تا تھا وہی ہی علینا سے غیر ہو چکا تھا اب علینا کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اس بات تک کی پرواہ کر تا تھا کہ علینا زندہ بھی ہے یا مر گئی ہے اور نہ ہی رات کو علینا کو بلواتا تھا اگر علینا خود آجاتی تھی تو آجاتی تھی مگر خود علینا کو نہیں بلو اتا تھا۔ اب وہ علینا کی طرد دیکھنا بھی پسندنہیں کرتا تھا علینا بھی زاہد کے اس رویے کی وجہ سے بہت پریشان تھی ۔ دوسری پریشانی اس کے پیٹ میں پل رہی تھی اب زاہد رات کو دیر سے گھر آتا تھا۔