ایک لڑکی کی درد بھری کہانی ہے کہانی کو مکمل ضرور سنیے گا وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے جب میں پیدا ہوئی مولوی صاحب کی اذان کے بعد اگر کوئی آواز میری کان میں پڑی جو کہ مسلسل میری ماں کو میری پیدائش پر طعنے دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کیا نحوست تو نے پیدا کی ہے اللہ تعالیٰ نے بھی اسی نحوست کو ہمارے گھر ہی پیدا کر نا تھا۔ لو جی بیٹی پیدا ہو گئی بس اسی جہیز بناتی نکل جا ئے گی صرف دادی ہی نہیں چچیاں، خالائیں اور پھو پھیاں سب ہی میری ماں کو طعنہ دے رہے تھے کہ کیا نحوست تو نے پیدا کر دی ہے اب یہ نحوست ہمارے گھر میں آتو گئی ہے لیکن جائے گی بہت ہی دیر سے یہ ہمارے گھر کو تباہ کر کے ہی جائے گی اپنے گھر ۔ بس جلدی سے اس کی پرورش ہو اور اس کی شادی کر کے اس کو اپنے گھر سے نکال دیں گے۔
میری ماں کو میری پیدائش کے نقصانات گنوانے میں مصروف تھیں آخر میرے والدین نے کوئی جرم تھوڑی نہ کیا تھا۔ ایک بیٹی ہی تو پیدا کی تھی کوئی جرم تھوڑی نہ کیا تھا ۔ حدیث بھی یہی ہے کہ جب بیٹا پیدا ہو تو سمجھو نعمت اللہ پاک نے دی ہے اور جب بیٹی پیدا ہو تو سمجھ جاؤ کہ اللہ پاک نے رحمت دی ہے مگر یہاں سب مجھ کو زحمت ہی سمجھ رہے تھے دادا ابا جان میری پیدائش پر بہت خوش تھے مجھے آج بھی یاد ہے ان کے چہرے کی وہ مسکراہٹ جب انہوں نے مجھے گود میں اٹھا یا میرا ما تھا چو ما اور مجھے اللہ کی رحمت کہہ کر پکا را لیکن سچ تو یہی ہے کہ عورت کو رحمت ہونے کا درجہ موت کے بعد ہی ملتا ہے۔
دنیا کے لیے وہ صرف زحمت ہوتی ہے میں پانچ سال کی ہوئی تو ابا نے سکول میں داخل کر وا دیا اپنے بھائی کے مقابلے میں کافی ذہین ثابت ہوئی ہرکلاس میں اچھے نمبر لے کر اور پہلی پوزیشن پر آتی واقعی میں میں رحمت ثابت ہوئی جب بھی کسی انعام کے لیے مجھے پکا را جا تا ” رحمت رضا” تو مجھے عجیب سی رضا مندی سی محسوس ہوتی ۔ مجھے بہت ہی زیادہ اطمینان محسوس ہوتا والدین کی طرف دیکھتی ان کے چہرے پر موجود مسکراہٹ سے میں بھی اطمینا ن میں آجاتی تھی اور مجھے فخر سا محسوس ہو تا تھا۔ اکڑی ہوئی گردن مجھے اس سے بڑھ کر مجھے کیا عزیز ہو سکتا ہے۔
میٹرک کے بعد میری شادی میرے تایا زاد حمزہ کے ساتھ کر دی ۔ حمزہ فطرتاً ایک لالچی شخص تھا۔ اس کی سر گرمیاں بھی کچھ ٹھیک نہ تھیں۔ ساری رات گھر سے باہر رہنا اس کے پسندیدہ مشاغل تھے شادی کے چار سال کے بعد ہمارے ہاں اولاد کی پیدائش ہو ئی یہ زندگی میں میرا پہلا لمحہ تھا جب میرے شوہر نے مجھ سے پیار سے بات کی تھی میری ساس نے اس دن کے بعد واقعی مجھے بہو تسلیم کر لیا تھا یہ زندگی کی حقیقت ہے کہ عورت کی عزت مرد سے ہی ہوتی ہے ۔بچوں کی پیدائش کے بعد حمزہ کافی سدھر گیا تھا اس نے ایک دوکان کھول لی تھی۔