کاش سڑکوں کی طرح زندگی کے راستوں پر بھی لکھا ہوتا کہ آگے خطرناک موڑ ہے ذرا سنبھل کے۔ مرنے کے بعد سو لوگ پوچھیں گے کیسے انتقال ہوا دوران زندگی کوئی نہیں پوچھتا کیسے جی رہے ہو۔ اچھی کتا بیں اور اچھے دوست زندگی بدل دیتے ہیں پر اگر ہمسفر بھی اچھا ہو تو تقدیر بدل جاتی ہے۔ اور پھر مانگی ہوئی توجہ عزت نفس کی توہین ہوتی ہے۔ میرے خدا نے جنت عورت کے قدموں میں رکھ دی ہے اور تم کہتے ہو کہ عورت چیز کیا ہے۔ کسی کے لیے اتنا بھی نہ گریں کہ جس کے لیے گرے ہو وہ بھی اٹھانے سے انکار کردے ۔ جب ہمارے احساس کو بہت بری طرح روند ا جاتا ہے۔
نہ تو پھر کسی سے احساس کے رشتے جوڑنے کو دل نہیں کرتا۔ بیٹی کو تم نہ جہیز دو نہ وراثت میں حق مگر من پسند شخص ضرور دو۔ کچھ لوگ اپنا بنانے کی آس دے کے مرجاتے ہیں۔ جب سے لوگ بزرگوں کی عزت کم کرنے لگے تب سے لوگ اپنے دامن میں دعائیں کم اور دوائیں زیادہ لینے لگے ہیں۔ اس دور کے لوگوں میں وفا ڈھونڈ رہے ہو؟ بڑے نادان ہو صاحب زہر کی شیشی میں دوا ڈھونڈ رہے ہو۔ خاموشیاں جن کو اچھی لگ جائیں وہ پھر بولا نہیں کرتے۔ جب روح کو چپ ڈس جائے تو اندر بے شما قب یں وجود میں آجاتی ہیں۔ لوگ بھول جاتے ہیں
ان سے کتنی محبت کی گئی، انہیں کتنا چاہا گیا ہو، ان کے کیا اور کتنا کچھ چھوڑا ، کیا کچھ داؤ پرلگایا گیا، کتنی راتیں جاگ کرگزاری گئی ، کتنی صبحیں انگاروں پر گزریں، کتنے آنسو بہائے گئے، کتنی اذیت سہی گئی۔ لیکن لوگ سب بھول جاتے ہیں۔ ہاں بھولنے والے سب بھول ہی جاتے ہیں۔ ہم جیسوں کے لیے یہ بھی المیہ ہے کہ پھول دینے کی عمر میں لوگ ڈپریشن دے رہے ہیں۔ ہم تحفے میں ایک دوسرے کو گھڑیاں تو دیتے ہیں مگروقت نہیں دے پاتے۔ جس مرد کے اندر یہ دو عادات ہوں
اس کی محبت دو سو فیصد جھوٹی ہوتی ہے اس پر بھو ل کر بھی اعتبا ر نہ کرنا۔ شادی کرنے کا نام لو تو مجبوری آجائے۔ شادی کے بغیر غلط تعلق رکھنے کا کہے۔ ہم لوگ محبت پر تحریریں لکھتے ہیں۔ فلسفے جھاڑتے ہیں ۔ اس پر بحث کرتے ہیں ۔ مگر محبت نبھاتے نہیں ہیں۔