Home / آرٹیکلز / کوئی کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو اپنا دکھ کسی کو مت بتاؤ کیونکہ ؟؟پرانے بزرگوں کی قیمتی باتیں

کوئی کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو اپنا دکھ کسی کو مت بتاؤ کیونکہ ؟؟پرانے بزرگوں کی قیمتی باتیں

ہمیں تو مردہ کو بھی سلام کہنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ مگر پتہ نہیں ہم انسانوں میں یہ انا ، ضد اور اکڑ کیوں آگئی ہے۔ کہ زندہ لوگوں کو بھی سلا م نہیں کرتے ۔ اگر کرتے ہیں ۔تو مطلب تک۔ جنازے میں شامل ہونے کے لیے لوگ دوسرے ملکوں سے بھی آسکتے ہیں ۔ جبکہ فرض نماز کےلیے پاس کی مسجد میں بھی جانا مشکل لگتا ہے۔ ماچس کی تیلی میں سر تو ہوتا ہے۔ پردماغ نہیں ہوتا۔ اسی لیے ذرا سی رگڑ سے بھڑک تواٹھتی ہے۔ پر انجام اپنی ہی آگ میں جل کر خا ک ہوجاتی ہے۔ حاسد کو بھی کچھ ایسا ہی حال ہوتا ہے۔ آپ کی آنکھوں کے نیچے سیاہی صر ف آپ کی خفیہ لڑائیوں کا رنگ ہے۔ جو آپ خود سے کرتے ہیں۔ بری عادت کی مثال ایک چھوٹے سے پودے جیسی ہے ۔

شروع ہی میں اکھیڑ دو توٹھیک ورنہ تناور درخت بن جاتا ہے۔ انسان کی لالچ کا پیالہ کبھی نہیں بھرتا کیونکہ اس میں ناشکری کے سوراخ ہوتے ہیں۔ جواس کو بھرنے نہیں دیتے۔ رشتے خوبصورت آواز، اونچے مرتبے اور خوبصورت چہروں سے نہیں بنتے بلکہ خوبصور ت دل اور نہ ٹوٹنے والے بھروسے سے بنتے ہیں۔ کسی کے آنسو کو زمین پر گرنے سے پہلے اپنے دامن میں جذب کرلو، یہی انسان کا معراج ہے۔ زندگی میں کبھی بھی اپنا دکھ، کمزوری کسی کےساتھ نہ بانٹؤ، خواہ وہ کوئی کتنا ہی قریبی اور عزیز کیوں نہ ہو ۔ ہوسکتا ہے اس لمحہ وہ آپ کو دلاسہ دے اور آپ کو سکون آجائے۔ لیکن یا د رکھیں ! وقت گزر جاتا ہے ۔

اور اگر آپ دکھ نہ بھی بانٹیں تو بھی بتدریج سکو ن آہی جاتا ہے۔ لیکن اگر جس کے ساتھ دکھ بانٹا ہو، وہ زندگی کےکسی موڑ پر جب آپ کو آپ کے اسی دکھ اسی کمزوری کا طعنہ دیتا ہے۔ تو نہ صرف وہ دکھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ بلکہ روح پر ایسا کاری زخم لگ جاتا ہے کہ جو کسی قیمت پر مندمل نہیں ہوپاتا۔ باتوں کو بھولنا سیکھنا پڑتا ہے۔ ورنہ یہ زندگی تنگ ہو کے رہ جائےگی۔ ساری زندگی لوگوں کے نقش کیے رویوں کو رو کر مٹاتے رہے تو خوشیاں خود ہی دور بھا گ جائیں گی۔ دنیا والوں کادستور عجیب ہے۔ ہنسنے والوں کے ساتھ دنیا ہنستی ہے۔ مگر رونے والوں کے ساتھ کوئی نہیں روتا۔ اپنے ہی بنائے ہوئے من گھڑت اصولوں اورمعیاروں پر دوسروں کو پرکھیں گے توخود کے سوا کوئی انسان سچا نہیں ملے گا۔ چھوڑنے والے کیا جانے یہ یادوں کے بوجھ کتنے بھاری ہوتے ہیں۔

وہ مرد خوش نصیب ہیں۔ جن کے سینے سے لگ کے عورت روتی ہے۔ اور سکون پالیتی ہے۔ کیونکہ ہر مرد میں اتنا حوصلہ اورہمت نہیں ہوتی کہ وہ عورت کے آنو صاف کرکے وہاں مسکراہٹ لے آئے۔ آجکل کے رشتے سورج مکھی کے پھول جیسے ہوتے ہیں۔ جدھر زیادہ فوائد ہوتےہیں ادھر گھوم جاتےہیں۔ ہمارا اپنا انتخاب ہوتا ہے ہم خود ایسے شخص پر اپنی تمام جمع پو نجی لٹا دیتے ہیں ۔ جس کے ہاتھوں ہمارا ذلیل ہونا لکھ دیا جاتا ہے۔ خدا کسی نرم دل والے کوکسی اناپرست سے محبت نا کروائے ، خدا کی قسم ایک مررہا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرے کو خبر تک نہیں ہوتی۔

About admin

Check Also

علم اور جہالت میں کیا فرق

ایک بوڑھی عورت مسجد کے سامنے بھیک مانگتی تھی۔ ایک شخص نے اس سے پوچھا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *