ایک خاتون ایک فقیر کو روزانہ کھانا کھلاتے تنگ آ گئیں تو ایک روز چڑ کر بولیں۔ آخر تم کھانا کھانے میرے گھر ہی کیوں آ جاتے ہو؟ اس گلی میں اور بھی تو اتنے گھر ہیں مگر میں نے تمہیں کسی دوسرے دروازے پر کھانا مانگتے نہیں دیکھا۔ میں ڈاکٹر کے حکم کی وجہ سے مجبور ہوں بیگم صاحبہ۔ فقیر نے سر جھکا کر کہا۔
کیا تمہیں ڈاکٹر نے روزانہ میرے گھر سے کھانا کھانے کا حکم دیا ہے؟ خاتون نے حیرت سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بات اس طرح تو نہیں کہی تھی۔ لیکن ان کا مطلب تھا بیگم صاحبہ! فقیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جو خوراک تمہارے معدے کو موافق آ جائے زندگی بھر وہی کھاتے رہنا۔ سکول کے تین طالب علم لڑکوں نے سکول کے چوکیدار کو کچھ روپے پیسے دیے اور کہا کہ چُھٹی کے وقت کسی ایک لڑکی کو کسی بھی طرح اندر ہی روک لینا لالچی چوکیدار نے پیسے لیے اور جونہی چُھٹی ہوئی تو اُس نے ایک لڑکی کو گیٹ کے پاس ہی بٹھا دیا۔ باہر جب اس لڑکی کا والد اُسے لینے آیا تو چوکیدار نے کہہ دیا کہ آپ کی بچی تو جا چکی ہے جب والد چلا گیا۔ تو چوکیدار نے اُسے کہا کہ آپ کے ابو آجائیں گے تم ٹینشن نہ لو اور اندر کلاس میں جا کر بیٹھ جاؤ جب کوئی آئے گا تو میں تمہیں اطلاع کر دوں گا۔لڑکی پریشانی کے عالم میں کلاس میں جا کر انتظار کرنے لگی تو چُپکے سے چوکیدار نے کمرے کا دروازہ لاک کر دیا۔ پھر وہ ہوس کے پُجاری تینوں لڑکے آ گئے، پہلے ایک نے جا کر زبردستی زیادتی کی پھر دوسرے نے بھی لیکن جب تیسرا لڑکا اُس کم سِن لڑکی سے اپنی پیاس بُجھانے اندر داخل ہوا تو آگے اُس بچی کو دیکھ کر اس کی سانسیں رُک گئیں اور پتھر کی طرح ساکت ہو گیا۔جانتے ہو کیوں ۔؟ کیونکہ آگے وہ لڑکی اُس لڑکے کی بہن تھی! لوگوں کی بہن بیٹیوں کو داغدار کرنے والو سنو! ایک نہ ایک دن تمہاری بہن بیٹیوں کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو گا کیونکہ یہ ایک قرض ہے جو چُکانا ہی پڑتا ہے۔