سبحان اللہ۔۔۔ ایک عورت اپنا قیصہ سناتی ہوئی کہتی ہے کہ میرا شوہر کسی وجہ ھاص وجہ سے لمبی مدت کیلئے غائب ہو گیا۔ میں اس وقت ایک چھوٹی بچی کی ماں بھی تھی جبکہ میرا اپنا ضعیف العمر باپ بھی ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا۔ ہماری غربت انتہا کو تھی اور اکثر اوقات ہمارے گھر میں کھانے کیلئے کُچھ نہیں ہوتا تھا۔اور ہم اکثر ایک وقت کی کھاتے تھے اور ایک وقت کے نہیں ملتی تھی۔
ہم صبر کے ساتھ ہر حال میں اللہ تعالی کا شُکر ادا کرتے تھے۔ابھوک اور افلاس نے تو ایک رات ہمارا وہ امتحان لیا اس سے پہلے جو کبھی نہیں لیا تھا۔ میری چھوٹی بیٹی کو شدید بُخار تھا۔بچی کی بُخار اور بھوک سے بنی حالت سے مُجھے اپنی اور اپنے والد کی بھوک بھول گئی۔ اور ایسی لاچاری تو کبھی نہ دیکھی تھی، بے قراری حد سے بڑھی تو مجھے اللہ تبارک و تعالٰی کا یہ قول یاد آ گیا:”أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَoترجمہ: بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے”جب وہ اُس سے دُعا کرتا ہے اور (کون اُسکی) تکلیف کو دور کرتا ہے۔ جی ہاں ہر قسم کی تکلیف چاہے وہ بھوک کی ہو یا بیماری کی یا غربت و افلاس اور گناہوں کی، کون ہے اُس ذاتِ پاک کے سوا جو ان سب تکلیفوں کو دور کر سکتا ہے؟”یہ سب سوچ کر میں اُٹھی اور جا کر وضوء کیا واپس آ کر بچی کے ماتھے پر پانی سے بھیگی ہوئی پٹی رکھی اور اللہ کے حضور نماز کی ادائیگی کیلئے کھڑی ہو گئی۔ مختصر سی نماز پڑھنے کے بعد ہاتھ اُٹھا کر بچی کیلئے دُعا کی۔
اُس کے ماتھے سے پٹی اُتار کر پانی میں دوبارہ سے بھگو کر رکھی اور ایک بار پھر نماز کیلئے کھڑی ہو گئی۔ ..نماز کے بعد ایک بار پھر بارگاہِ الٰہی میں دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے، دعا سے فراغت پر پانی کی پٹی تبدیل کی اور دوبارہ نماز کیلئے کھڑی ہو گئی۔ اور یہ عمل میں نے کئی بار کیا۔جب میں یہ سب کُچھ بار بار دُہرا رہی تھی تو کسی نے دروازہ کٹھکٹھایا، اِس حیرت کے ساتھ بھلا رات کے اِس پہر کون ہو سکتا ہے میرے والد نے پوچھا: کون؟ اور جواب آیا کہ میں ڈاکٹر ہوں۔ میں اور میرا والد ہم دونوں ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ اِسکو کِس نے بُلایا ہے، میرے والد نے جا کر دروازہ کھولا۔ ڈاکٹر نے آتے ہی پوچھا کہ مریضہ کِدھر ہے اور ہم نے سادگی سے بچی کی طرف اِشارہ کردیا۔ ڈاکٹر نے بچی کو چیک کیا، کاغذ پر ایک نُسخہ لکھ کر میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا؛ لائیے میری فیس دیجیئے اور میں چلتا ہوں۔ میں نے آہستگی سے جواب دیا؛ ڈاکٹر صاحب ہمارے پاس تو آپکو دینے کیلئے فیس کے پیسے نہیں ہیں بلکہ ہمارے پاس تو کُچھ بھی نہیں ہے۔ میرا یہ جواب سُنتے ہی ڈاکٹر جھلا اُٹھا اور غصے سے تقریبا ڈھاڑتے ہوئے بولا۔
اور کُچھ دیر کے بعد ہمارے لئے رات کا کھانا اور بچی کیلئے دوائیں اور کُچھ گھریلو ضروریات کے سامان کے ساتھ لوٹا۔ ساتھ ہی اُس نے ہمیں بتایا کہ اُسکی طرف سے ہر مہینے ایک تنخواہ ہمیں اُس وقت تک ملتی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ جی ہاں، یہ اللہ پر بھروسے کی کہانی ہے۔ صرف یاد دہانی کیلئے اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات پر اِس سے بھی بڑے بھروسے کی کہانی سُنیئے کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے تعاقب میں آنے والے دشمنوں سے خوفزدہ جان بچاتے ہوئے اھل مدین کی طرف پہنچے اور کنویں پر کھڑی دو لڑکیوں کے ریوڑ کو پانی پِلا چُکے تو اُنہوں نے کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا تھا حالانکہ اُس وقت وہ بھوک سے بے حال تھے۔ اُنہوں نے بقول قُرآن مجید صِرف اتنا کہا تھا:رَبِ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ”پروردگا میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے””اور پھر اِس کے بعد کا قصہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جواب یوں تھا کہ: ایک لڑکی سے مفت میں شادی اور دس سال کیلئے کام کا معاہدہ۔”جی ہاں: اللہ پر بھروسہ کیجیئے؛ کیونکہ اللہ تو ہمیں ہماری جنم دینے والی ماؤں سے بھی زیادہ پیار اور رحم کرنے والا ہے۔ بیشک اللہ تعالی سے مدد مانگنے والے کو کبھی بھی بےیارومددگار نہیں چھوڑتا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آپ مجھ سے مانگو میں میں آپ کو دوں گا۔ اللہ تعالی اگر انسان کو پوری دنیا کے برابر دولت بھی دے۔ تو بھی اس کے خزانے میں تنکے برابر کمی نہیں اتی۔ ہمیں چاہیے وقت اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اسی سے مدد نہیں مانگی چاہیے بیشک وہ مدد کرنے والا ہے۔