وہ ایک ایسا وظیفہ ہے جو کہ دشمن کے حوالے سے ہے۔ آپ جس دن یہ وظیفہ شروع کریں
تو اللہ کے حکم سے ایک دن کے اندر اندر آپ کا دشمن مغلوب اور مغرور ہوجائے گا۔ اگر دشمن شدید تر ہے جس سے آپ چھٹکارا چاہتے ہیں تو انشاءاللہ ایک دن کے عمل سے اللہ پاک آپ کو نجات عطافرمائیں گے۔ اس کے لیے آپ کو ایک واقعہ بتا تا ہوں۔ جو کہ سچا واقع ہے۔ انشاءاللہ امید کرتے ہیں آپ کی زندگی میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔
اس سے ضرور سبق حاصل ہوگا۔ اس عمل میں کرنا کیا ہے؟ جب بھی کسی دشمن سے آمناسامنا ہو تو پچا س مرتبہ بسم اللہ پڑھ کر اپنے دشمن کے آمنے سامنے یا پھر اس کو تصور میں لا کر اس پر پھونک دیں اور پھر کمال دیکھیں کہ اللہ کےحکم سے آپ کے دشمن کو مغلوب کریں گے۔ اگر بسم اللہ پچاس مرتبہ پڑھ کر اس پر پھونک دیں گے توا للہ تعالیٰ اس کو مغلوب کر دیں گے۔ اور آپ کو اللہ پاک غالب کردیں گے۔ شرط یہ ہے کہ واقعتاً وہ آپ کادشمن ہو۔ یا واقعتاً آپ مظلوم ہوں۔ تب بھی یہ وظیفہ کارآمد ثابت ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ ناجائزنا حق کریں اور آپ کہیں کہ وظائف کام نہیں کرتے۔ آپ نے اس عمل کو صرف اورصرف پچاس مرتبہ پڑھنا ہے۔ اس دشمن پر سامنے سے پھونک دیں ۔
اگر دشمن سامنے نہیں ہے تو اس دشمن کو خیا ل میں تصور کرکے اس پر پھونک دیں گے ۔ انشاءاللہ اللہ پا ک آپ کے دشمن کو مغلوب کردیں گے۔ اور پڑھنے والاکو اللہ پاک غالب کردیں گے۔ اور دشمن سے نجات کا باعث بنے گا۔ کوئی جتنا بڑا دشمن ہو جتنا مرضی آپ کا برا چاہنے والا ہو لیکن اس واقع کو سننے کے بعد آپ کے دل میں یقین قائم ہو جائے گا۔ کہ جو انسان جیسا کرتا ہے اللہ پا ک اس کےساتھ ویساہی معاملہ عطا کرتے ہیں۔ بقر بن عبداللہ کہتےہیں۔ کہ ایک شخص ہمیشہ بادشاہ کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ اور ہرروز اس کے سامنے کھڑے ہو کر یہی الفاظ دہراتا تھا۔ جونیکو کا ر ہیں ان کے ساتھ نیکی کرتے رہو۔ اور بروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ ان کی بدکاری ان کےلیے خود کافی ہے۔ اس کی اسی بات نے اس کو بادشاہ کا منظور نظر کردیا۔ ایک حاسد نے اس کے کان میں پھونک دیا۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ آپ کا منظو ر نظر کہتا ہے کہ بادشاہ کےمنہ سے بدبو آتی ہے۔
بادشاہ نے کہا کہ ا س کا کیا ثبوت ہے؟ اس نے کہا کہ اس کو اپنے قریب بٹھا کر دیکھنا کہ وہ اپنے ناک پر ہاتھ رکھے گا۔بادشاہ کے کان بھرنے کے بعد وہ اس نیک آدمی کے پاس گیا۔ اور کھانا کھلایا جس میں لہسن کی بدبو خاصی تیز تھی۔ اور بادشاہ اس نیک بندے کو بلوایا اور نیک بندے نے بدبو کی وجہ سے ہاتھ رکھ لیا۔ بادشاہ کو یقین ہونے کے بعدیہ عادت تھی کہ وہ اپنے ہاتھ سے خلعت اور انعام کا فرمان تحریر کرنے کے علاوہ کبھی بھی کچھ نہ لکھتا تھا۔ اس روز غصے سے اپنے عامل کولکھا کہ اس نیک بند ے کا سر قلم کرکے میرے پا س لاؤ۔حاسد نے اس سے کہا ہاتھ میں کیا ہے؟ اس نے کہا کہ خلعت ۔ حاسد نے کہا مجھے اس کی ضرورت ہے۔
حاسد یہ فرمان لے کر اس عامل کے پاس پہنچا۔ اس عامل نے پڑھنے کے بعد کہا اس میں سر قلم کرنے کا لکھا ہے۔ حاسد نے کہا یہ کسی اور کےلیے ہے۔ اور بادشاہ سے دوبارہ معلو م کروا لو۔ اس نے کہا کہ شاہی فرمان کی تصدیق نہیں کیا کرتے یہ کہہ کر اس نے حاسد کا سر قلم کردیا۔اگلے دن اس نیک بندے نے بادشاہ کی دربار میں حاضر ہوکر وہی الفاظ داہرئے اور صیحح سلامت دیکھ کر متعجب ہوا اور پوچھا کہ وہ خط کہاں گیا اس نے کہا کہ فلاں شخص نےلے لیا تھا ۔
یہ تو اس شخص نے کہا تھا کہ تم میرے خلاف یوں کرتے ہو۔ وہ بولا میں نے کبھی بھی ایسے الفاظ نہیں بولے۔ اس حاسد نے لہسن کی چیز کھلائی جس سے بدبو آرہی تھی ۔ اور ہاتھ رکھ لیا۔ بادشاہ نے اس کے الفاظ دہرائے اورکہا میں نے دیکھ لیا کہ واقعی اس بدکردارکی بد ی خود ہی اس کے آگے آگئی۔اس واقع سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ جب ہمیں پتہ ہو کہ یہ ہمارا دشمن ہے تو ہمیں صرف اور صرف اللہ کی ذات پر یقین ہونا چاہیے۔