امام جعفر صادق ؑ کی خدمت میں ایک شخص آکر عرض کرنے لگا اے نواسہ رسول مجھے کوئی ایسی دعا بتائیں
جس سے سحری اور افطاری کا ثواب ہزار گنا بڑھ جائے۔ اور میرے ساری دعائیں قبول ہوجائیں۔ تو امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا: اے شخص ! جب بھی رمضان میں روزہ رکھو۔ تو سحری پر اور افطار ی میں “سورت القدر ” پڑھو۔
پھر اللہ سے اپنی دعا مانگو۔ کیونکہ میں نے اپنے بابا اور انہوں نے اپنے بابا اور انہوں نے اپنے بابا اور انہوں نے اللہ کے رسول سے سنا کہ جو انسان سحری اور افطار ی پر سورت القدر پڑھتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے روزے کے ثواب کو ہزار گنا بڑھا دیتا ہے۔ اور اس وقت مانگی ہوئی دعا کو فوراً قبول کردیتاہے۔ اور اپنے فرشتوں کوحکم دیتا ہے کہ اس کے زندگی سے تمام پریشانیوں کو ختم کردو۔ تمام مصیبتوں کو مٹا دو۔ اور غیب کے خزانے سے اسے وہ عطا کر دو۔ جو یہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ.”میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔
“یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ روزہ رکھنے کی دعا کسی حدیث مبارکہ میں منقول نہیں۔ اصل نیت فرض ہے جو دل کے ارادے کا نام ہے۔ نیت کا مطلب کسی چیز کا پختہ ارادہ کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں نیت کا مطلب ہے کسی کام کے کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا ارادہ کرنا۔نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ جیسی عبادات میں نیت فرض ہے لیکن الفاظ فرض نہیں۔ البتہ آج کل ذہن منتشر ہوتے ہیں، لہٰذا ایک تو زبان سے کہہ لینے سے دل کا ارادہ و قصد ظاہر ہو جائے گا، دوسرا زبان سے بولا جانے والا ہر لفظ نیکیوں میں لکھا جائے گا کیونکہ رضائے الٰہی کی خاطر کیا جانے والا کام جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو، تو اسلام اس کو قبول کرتا ہے۔ امر مستحسن کے طور پر اس کام پر اجر و ثواب اور فوائد و برکات بھی متحقق ہوتے ہیں۔ لہٰذا روزہ رکھتے وقت مروجہ دعا کے الفاظ بطور نیت دہرانا بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔
جب کہ روزہ افطار کرنے کی دعا مختلف الفاظ کے ساتھ کتبِ حدیث میں بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے :اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.”اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کی۔”بعض کتب حدیث میں یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، جیسے وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ (اور میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا) یا فَتَقَبَّلْ مِنِّی، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (پس تو (میرا روزہ) قبول فرمالے۔
بے شک تو خوب سننے والا جاننے والا ہے)؛ لیکن ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں مگر یہ الفاظ درست ہیں اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے (جس طرح بعض لوگ حج کے موقع پر تلبیہ میں اضافہ کر لیتے ہیں)۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں ہم اِفطار کے وقت درج ذیل مروجہ دعا پڑھ سکتے ہیں :اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ”اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کی۔”