اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیوی سے اگر کوئی غلط بات ہوجائے تو چھوٹی بات پر بڑے بڑے فیصلے نہ کر دیا کرو اگر ایک طرف اس میں غلطی ہے تو آخر اس میں اچھائیاں بھی تو ہیں تو اس لئے کبھی بھی ایک غلطی کو لے کر اچھائیوں پر پردہ ڈال کر بڑے فیصلے نہ کیا کرو یہ کوئی دانش مندی کی بات نہیں بلکہ غلطی ہے تو اس کو سمجھا دو اس کو تنبیہ کرو کیا ہوتا ہے دنیا جہان کو دین کی بات بتانے کے لئے تیار ہیں لیکن اپنی بیوی کو سمجھانے کے لئے تیار نہیں ہیں کیوں ؟ اچھا ابھی یہ سمجھی نہیں ہے اتنا عرصہ ہوگیا میرے ساتھ رہ رہی ہے لو سمجھایا کب تھا کس نے اہتمام کیا ہے کہ اپنی گھر والی کو اس کا وضو چیک کر لے ٹھیک کرتی ہے اس کی طہارت ٹھیک کرے وہ بچوں کو دھوتی ہے تو کیا وہ اپنے ہاتھوں کو بھی دھوتی ہے یا نہیں اس کی نماز درست کروائیے ایمانداری سے سوچئے اپنے اپنے دل میں کون اس کا اہتمام کرتا ہے یہ تو چیک ہوسکتا ہے کہ میڈاپ اور میک اپ کیسا ہے
لیکن یہ چیک نہیں ہوگا کہ وضو ٹھیک کرتی ہے کہ نہیں کرتی اس کی نماز کا طریقہ اس کی مہمان نوازی کا طریقہ میل جو ل کا طریقہ یہ کوئی چیک نہیں کرے گا چیک وہ کرے گا جو دماغ میں آئے گا عزیزان گرامی جب تک ہم اپنے گھروں کے اندر یہ ذوق پیدا نہیں کریں گے کہ اپنی گھر والی کے ساتھ اتنا اہتمام نہیں کریں گے کبھی بھی اولاد تمہاری یہ نہیں سوچ سکتی کہ کل کو کوئی کام کر دے کہاں گئے وہ مجاہدے کہاں گئے وہ مفکر محدث کیوں پیداہوتے کیونکہ ماں اور باپ ایسے تھے آج کیا ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد ہے:اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں
یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت بناؤ سنگھار کر سکتی ہے لیکن اسے ہر کسی کے لیے ظاہر نہیں کر سکتی جن کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے ان کے بارے میں آیت مبارکہ میں بیان ہو چکا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بناؤ سنگھار ہے کیا اور کس حد تک اس کی اجازت ہے؟ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنے، اپنے بال سنوارے اور جہاں تک مناسب ہو زیب وزینت کا بندوبست کرے یعنی خاوند کی حیثیت کے مطابق جو اخراجات مہیا ہوں، ان کے اندر رہتے ہوئے میک اپ ہونا چاہیے فضول خرچی نہیں ہونی چاہیے اور باقی گھریلو اخراجات کا بھی خیال ہونا چاہیے۔ رہی بات بیوٹی پارلر جانے کی اس کے بارے میں رائے یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا مقصد کے لیے ہی بناؤ سنگھار کوئی عورت خود نہیں کر سکتی تو وہ بیوٹی پارلر بھی جا سکتی ہے کوئی حرج نہیں۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین