ابن الجمع نے ایک دوست کا واقعہ بیان کیا ہے ! کہ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا میرے گھر کے قریب جو قبرستان ہے اس قبرستان کے مردے اپنی قبروں سے نکلے ہیں اور ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں۔پھر انہوں نے گریاوزاری شروع کر دی اور گڑ گڑا کر دربار الہی میں دعا کرتے ہیں۔یا اللہ تو فلاں عورت جو صبح مر گئی ہے وہ ہمارے قبرستان میں دفن نہ ہو یا اللہ ہمیں اس سے بچا لے مجھے یہ سن کر میں نے پوچھا ماجرہ کیا ہے تم کیوں یہ دعا کر رہے ہو ہو یا جو عورت آج مری ہے جہنم میں ہے ہے اس میں دفن کر دی گئی تو ہم اس کا عذاب دیکھنے میں تکلیف ہوگی اس لئے ہم گریہ و زاری کر رہے ہیں
اور گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہے ہیں۔یہ سن کر میں بیدار ہو گیا اور سخت متعجب ہوا صبح ہوئی تو قبرستان کی طرف نکلا اور دیکھا کہ گورکن یعنی قبر کھودنے والے قبر کھود چکے ہیں میں نے اس سے پوچھا یہ کس کے لئے بنائی گئی ہے انہوں نے بتایا ایک مالدار تاجر کی بیوی فوت ہو گئی ہے ہے یہ اس کے لئے قبر کھودی گئی ہے ہے میں نے ان کو رات والا منظر بتا دیا یا قبر کھودنے والوں نے یہ واقعہ سن کر قبر بند کر دیں دی اب میں انتظار کرنے لگا کہ کیا ہوتا ہے ہے تھوڑی دیر گزری تو چند آدمی آئے اور گورکنوں سے پوچھا قبر تیار ہوگئی۔انہوں نے جواباً کہا کہ یہ قبر نہیں بن سکتی کیونکہ نیچے کیچڑ ہے۔
وہ آدمی یہ سن کر دوسرے ڈیرے پر چلے گئے کیونکہ وہاں بھی خواب والی بات پہنچ چکی تھی اس لیے انھوں نے بھی قبر کھودنے سے انکار کر دیا پھر وہاں سے بعد میں کسی دوسرے قبرستان گئے اور وہاں قبر بنوائی۔پھر میں جنازہ کی آمد کا انتظار کرنے لگا لگا پھر اچانک شور اٹھا کے جنازہ آرہا ہے ہے میں بھی جنازے کے ساتھ ہوگیا کیا جنازے کے ساتھ ایک جمِ غفیر تھا میں نے جنازے کے پیچھے ایک خوبرو نوجوان کو دیکھا دیکھا میرے پوچھنے پر مجھے بتایا کہ اس عورت کا بیٹا ہے اس کی اور اس کے باپ کی تعزیت کی جا رہی تھی جب میں دفن کر دی گئی تو میں دونوں کے قریب گیا اور کہا میں نے رات ایک خواب دیکھا ہے اگر اجازت ہو تو بیان کروں؟یہ سن کر باپ نے یعنی مرنے والی کے خاوند نے کہا!مجھے خواب سننے کی ضرورت نہیں لیکن لڑکے نے کہا سنا ئیے میں اسے تخلیہ میں لے گیا
اور خواب بیان کر دیا پھر اسے کہا تجھے چاہیے کہ اس بات کی تحقیق کرے اور وجہ معلوم کرے کہ کیوں قبر والوں نے گڑگڑا کر دعائیں کی تھیں۔اس نوجوان نے کہا اور تو مجھے کچھ معلوم نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کے میری ماں شراب نوشی کرتی تھی اور گانے سنتی تھی نیز دیگر عورتوں پر بہتان لگایا کرتی تھی مگر یہ افعال اتنی سنگین نہیں کہ بات یہاں تک پہنچ جائے کہ مردے بھی دعائیں کریں کہ یہ ہم میں دفن نہ ہو ہاں ہمارے گھر ایک بوڑھی عورت ہے جس کی عمر 99سال کی ہے وہ میری ماں کی دایہ اور خدمت گار تھی اگر آپ چاہیں تو چلیں چل کر اس سے پوچھیں شاید وہ میری ماں کا کردار جانتی ہو۔پھر ہم دونوں اس نوجوان کے گھر گئے اس نوجوان نے مجھے ایک بالا خانے میں داخل کر دیا
وہاں ایک معمر خاتون بیٹھی تھی اس نوجوان نے بوڑھے کو میری طرف متوجہ کیا میں نے خواب بیان کر کے پوچھا کیا تیرے پاس کچھ معلومات ہیں۔یہ سن کر بڑھیا نے کہا میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ اسے بخش دے وہ عورت بہت زیادہ بدکار تھی اس پر نوجوان نے بڑھیا سے پوچھا کیا میری ماں شراب نوشی گانا سننے اور عورتوں پر بہتان لگانے کے سوا بھی گناہ کرتی تھی تواس نے کہا بیٹا برا نہ مانے تو میں بتا دیتی ہوں کیونکہ اس آدمی نے جو خواب بیان کیا ہے یہ تیری ماں کے گناہ کے سامنے معمولی ہے نوجوان نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تو ہمیں بتائے تاکہ ہم ایسے کردار سے بچ جائیں اور عبرت حاصل کریں۔یہ سن کر بڑھیا رونے لگی خدا تعالی جانتا ہے میں کئی سالوں سے توبہ کر چکی ہوں اور مجھے امید تھی کہ تیری ماں بھی تو بات کر لے گی مگر اس نے توبہ نہیں کی اب میں تمہیں تین کارنامے تیری ماں کے سناتی ہوں۔
بڑھیا نے اس عورت کے لڑکے کو مخاطب کر کے کہا۔تیری ماں بہت بڑی بدکار تھی تھی ہر دن ایک دو نوجوان اس کے گھر آتے تھے تھے جن سے وہ اپنی خواہش پوری کرتی تھیں اور تیرا باپ بازار میں کام کرتا تھا تو جب جوانی کو پہنچا تو نہایت وجیہ نوجوان تھا۔میں دیکھا کرتی تھی کہ تیری ماں تیری طرف شاہ عورت کی نظر سے دیکھا کرتی تھی حتیٰ کہ ایک دن تیری ماں نے مجھے کہا میں اپنے بیٹے پر فریفتہ ہو گئی ہوں۔کسی طریقے سے اس کو میری طرف راغب کرمیں نے سن کر تیری ماں سے کہا کہ بیٹی یہاں تک کیوں جاتی ہے تیرے لیے اور بہت سارے نوجوان ہیں جن سے تو اپنی خواہش پوری کر سکتی ہے لہذا بیٹی تو اللہ تعالی سے ڈر اور اس ارادے سے باز آجا تو تیری ماں کہتی تھی نہیں
مجھے اس کے سوا صبر نہیں۔نہیں تو میں نے تیری ماں سے پوچھا تو اس مقصد میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہے کہ تیرا بیٹا ابھی نوعمر ہے تو خواہ مخواہ بد نام ہو گی لہذا خدا کے لئے اس ارادے سےباز آجا تو تیری ماں نے مجھ سے کہا جو میری مدد کرے تو میں کامیاب ہو سکتی ہوں میں نے پوچھا کیا حیلہ کیا جائے تو تیری ماں نے کہ فلاں گلی کے مکان میں ایک عرضی نویس ہے وہ خط لکھ کر مردوں کو عورتوں سے ملاپ کراتا ہے اور اجرت لیتا ہے تو اس سے کہہ کہ وہ میرے بیٹے کو تحریر لکھے اور نام لیے بغیر کہے۔کہ ایک دو شیزا تجھ سے عش ق کی حد تک محبت کرتی ہے وہ تجھ سے فلاں جگہ فلاں وقت ملاپ چاہتی ہے۔اس بوڑھی عورت نے کہا کہ میں نے ایسا ہی کیا اور جب تجھے میں نے وہ خط دیا تو تو بھی فریفتہ ہو گیا اور تو نے لکھ دیا کہ مجھے منظور ہے فلاں وقت میں آ جاؤں گا
تو میں نے تیری ماں کو مطلع کردیا تیری ماں نے جواب پڑھ کر کہا اماں تو میرے بیٹے سے کہہ کہ فلاں وقت فلاں جگہ آجائے اور تو فلاں بالاخانہ اچھی طرح تیار کر اور اس میں پھول اور خوشبو وغیرہ کا انتظام بھی کر اور تو میرے بیٹے کو بھی یہ کہہ کہ جس عورت نے مجھے بلایا ہے وہ روشنی پسند نہیں کرتی بلکہ یہ کام اندھیرے میں بہتر ہے تاکہ تمہارے والدین کو تم پر شک نہ گزرے۔پھر میں تیرے پاس آئی تھی تو تونے یہ بات مان لیں اور رات کا وقت مقرر ہوا میں نے تیرا جواب تیری ماں کو پہنچایا تو اس نے بہترین کپڑے پہنے اور عمدہ خوشبو لگائیں اور وہ اس بالاخانے میں پہنچ گئی اور پھر تو بھی پہنچ گیا کیا
اور پھر دادو عیش سحری تک جاری رہی پھر تو وہی سو گیا تو میں نے صبح کے وقت آکر تجھے جگایا۔پھر چند دنوں بعد تیری ماں نے مجھ سے کہا اماں میں اپنے بیٹے سے حاملہ ہوگئی ہوں اب میں کیا کروں تو میں نے کہا مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ تو کیا کرے لیکن تیری ماں کسی حیلے بہانے سے تجھ سے اپنی خواہش کرتی رہی رہی حالانکہ ولادت کا وقت قریب آ گیا تو تیری ماں نے تیرے باپ سے کہا کہ میں بیمار ہوں میں چاہتی ہوں کے کچھ دن اپنی ماں کے پاس رہا و تو تیرے باپ نے اجازت دے دی پھر تے میں اور تیری ماں تیری نانی کے گھر چلی گئیں۔وہاں ایک کمرے میں رہائش رکھ دیں
اور جب ولادت کا وقت قریب آیا تو میں ایک دایا کو بلا کر لائیں تو تیری ماں کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو کہ تیری ماں نے مار دیا اور پھر ہم دونوں نے وہ بچہ دفن کر دیا۔کچھ دن گزرنے کے تیری ماں نے مجھ سے کہا میں پھر اپنے بیٹے سے خواہش پوری کرنا چاہتی ہوں۔تو میں نے کہا بیٹی جو کچھ ہو چکا وہ تیرے لئے کافی نہیں نہیں تو تیری ماں نے کہا مجھے صبر نہیں ہے اور پھر اسی طرح یہ سلسلہ شروع ہوگیا یا پھر جب وہ دوسرا واقعہ سنانے لگیں تو اس عورت کے بیٹے نے یہ کہہ کر بات ختم کر دیں
اب بس کر اتنا ہی کافی ہے اللہ میری ماں پر لعنت کرے اور ساتھ تجھ پر بھی لعنت ہو یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور میں بھی اس کے ساتھ اٹھ کر آ گیا کاش کہ وہ بڑھیا دوسرے دو واقعات بھی سنا دیتی۔پیارے دوستو اس واقعے کا اخلاقی سبق ق اندازہ کیجئے جب انسان کی شرم و حیا ختم ہو جائے تو وہ کس قدر پستی میں چلا جاتا ہے ہمیں چاہیے کہ اس واقعے سے سبق حاصل کریں اور آنے والے وقت کو بہتر بنائیں ۔