Home / آرٹیکلز / انسان ابھی اور کتنا بے حیا ہوسکتا ہے غیر فطری شادیاں اور جنسی تعلقات

انسان ابھی اور کتنا بے حیا ہوسکتا ہے غیر فطری شادیاں اور جنسی تعلقات

اللہ تعالیٰ نے دنیا جتنی بھی مخلوقات پیدا فرمائیں ۔ ان کی نسل کو آگے بڑھانے کے لیے ان کو ایک جوڑے کی شکل میں پیدا فرمایا۔ جب کہ انسان جوکہ ایک مہذب ہے اور معاشرتی جاندار ہے اس نے اپنی نسل اور اپنی بقاء کے لیے نر اور مادہ کی اس رشتے کو معاشرتی اور قانونی حیثیت دینے کے لیے شادی کا نام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جہاں کہیں انسانی معاشرہ پایا جاتا ہے۔ وہاں مرد اور عورت کے اس باہمی تعلق شادی کے ذریعے حلال اور سلطنت کے قوانین کے مطابق عزت اور تحفظ دیا جاتا ہے۔

لیکن بہت سے انسانی معاشرے ایسے بھی ہیں۔ جہاں کے قوانین شادی اور جنسی تعلقات کو انسان کا ذاتی مقصد سمجھتے ہوئے کوئی بھی پابند ی نہیں لگاتے۔ لیکن دنیا کے اکثر ممالک میں شادی مرد وعورت کی رضا مند ی اور مذہبی رسومات کے مطابق کی جاتی ہیں۔ مثا ل کے طور پر اسلام میں خاص طریقہ کا ر کے طور پر مرد و عورت کے نکاح کے بندھن میں باند ھا جاتا ہے۔ جبکہ دیگر مذاہب بھی اس فرض کی ادائیگی کے لیے اپنا اپنا طریقے کار رکھتے ہیں۔

لیکن سب کے باوجود اکیسویں صدی کے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں شادی کی بہت سی شرمناک اور غیر اخلاقی صورتیں موجود ہیں۔ ہم آپ کو کچھ ایسی شادیوں کے بارے میں آگا ہ کریں گے ۔ اس بات سبھی کا اتفا ق ہے کہ شادی کا عمل اگر مذہبی حدو د کے اندر رہ کر کیا جائے تو یہ رشتہ قابل احترام اور معاشر ےکے اندر ایک معز ز مقام رکھتا ہے۔ جو کہ نسلے انسانی کی بقاء کے لیے بہت ضروری ہے ۔ لیکن آج کی نام نہاد اور مہذ ب دنیا میں انسان کو اس کی فطر ی آزادی کے آڑ میں اس دلدل میں اترنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔

جہاں جاگیر اور نام نہاد خاندانی کے وقار کے نام پر عورتوں نعوذ بااللہ ! قرآن سے شادی پر اکسار کر ، آزمائشی زندگی گزارنے پر مجبو ر کیا جاتا ہے۔ یہ شرمنا ک رسم برصغیر کے کئی ممالک میں جاگیر اور وقار کے شیطانی کھیل پر جاری و ساری ہے۔ حالانکہ ملکی قوانین ہے۔ اس رسم پر پابندی لگاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اب بھی یہ رسم عملی طور پر نام نہاد مہذب معاشروں کا مذاق اڑا رہی ہے۔ علم کی بلند یوں کو چھونے والا اکیسویں صدی کا انسان جہاں پر اپنی بہترین صلاحیتوں کی بدولت معاشرے کو نکھارنے میں اپنا اہم کردار ادا کررہا ہے

وہاں کی شعور کی طاقت کی بدولت اس نے اخلاقی پستی کی ایک گہری کھائی بھی آباد کردی ہے۔ جس کی ادنیٰ مثال سو لومیرج ہے۔ یعنی خو د اپنے آپ سے شادی کی صورت میں موجود ہے ۔ جہاں لڑکے اور لڑکیاں ، بانجھ اور بیوی عورت کے رشتے میں جڑنے کے بجائے اپنی ذات سے خود شادی کرکے خود لذتی کا سامان پیدا کررہے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ سولو میرج کرنے والوں کے نزدیک ، اولاد کے جھنجھٹ سے رہائی کی خواہش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم جنسی پرستی غیر انسانی اور غیر اخلاقی خواہش نے بھی اس مقد س فریضے کے انجام میں کئی رکاوٹیں حائل کی ہیں۔

جس کی وجہ ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اکثریورپین ممالک میں۔ جہاں یہ رواج پارہا ہے بلکہ افسوس کا مقا م یہ ہے کہ کئی ممالک نے اس کو قانونی طور پر جائز کرتے ہوئے ہم جنس پرستوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔ جس وجہ سے یہ غیر اخلاقی رسم تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے۔ اور اس عمل کو سرانجام دے کر ، فطرت سے بغاوت کرنے کے ساتھ ساتھ کئی جسمانی اور معاشرتی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ جبکہ یورپ میں ہم یہ اخلاقی پستی دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں ایک عورت بیک وقت کئی مردوں سے شادی یا پھر جنسی تعلق قائم کرسکتی ہے۔ اوراب اس طریقے کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہوئے انسانوں کی ان شرمناک کارناموں کی دادرسی کی جارہی ہے۔ لیکن اس انسانی معاشرے کی تاریخ کو کنگھا ل کر دیکھا جائے تو عقل و فکر دنگ رہ جاتی ہے۔ کہ جانور بھی ان غیر اخلاقی کاموں سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن حضرت انسان نے بھی ان کو اپنے نامہ ء اعمال میں شامل کر لیا ہے۔

About admin

Check Also

علم اور جہالت میں کیا فرق

ایک بوڑھی عورت مسجد کے سامنے بھیک مانگتی تھی۔ ایک شخص نے اس سے پوچھا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *