کہتے ہیں کہ بغداد میں ایک آدمی جس کا نام ابوالقاسم تھا‘ اپنے ایک جوتے کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ سات سال سے ایک ہی جوتا پہنتا تھاجس کی وجہ سے پیوند لگالگاکر جوتی بہت بھاری ہوچکی تھی۔ گاؤں کے تمام لوگ اُس کے جوتوں کو جانتے تھے۔ایک دن وہ نہانے کےلئے حمام کی طرف نکلے۔راستے میں اِس کا ایک دوست ملا۔ دوست نے اُس سے کہا’ارے بھائی آپ مالدار آدمی ہو اپنے لئے نئے جوتے کیوں نہیں لیتے ہو؟ پھر اُس کے دوست نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو وہ اُس کو لیکر دیں گے۔ابوالقاسم بہت خوش تھا۔ وہ حمام میں نہانے کے بعد جب باہر نکلا تو حمام میں اُس کے پُرانے جوتوں کے ساتھ ایک نیا جوڑا پڑا تھا۔ وہ اُن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور یہ سمجھ کر کہ شاید اُس کے دوست نے لیکر یہاں رکھا ہے‘ پہن کر اپنے گھر چلے گئے۔چند دن بعد پتہ چلا کہ وہ جوتے قاضی صاحب کے ہیں۔ وہاں پر موجود لوگوں نے قاسم کے جوتے کو پہچان لیا پولیس کو اطلاع دی اور پولیس اُن کے جوتے لیکراُن کے گھر میں داخل ہوگئی۔
اُن کو جوتا چرانے کی جرم میں سزا ملی اور جرمانہ بھی ہوا۔ایک عرصے کے بعد وہ قید سے رہا ہوئے اور اپنے جوتے کو غصے سے قریبی دریا میں پھینک دیا۔کچھ دن بعد ایک شکاری دریا میں مچھلی پکرنے گیا اور جھال میں جوتے نکل آئے۔ شکاری نے قاسم کے جوتے پہچان لئے اور اُن کو لیکر اُن کی گھر کی جانب گئے۔ ابوالقاسم گھرمیں نہیں تھے شکاری نے اُن کے جوتوں کو کھڑکی سے اندر پھنکا۔ جوتے اندر سیدھے شیشے کے صندوق پر گرے اور وہ ٹوٹ گیا وہاں موجود کچھ شیشے کے سامان بھی ٹوٹ گئے۔جب وہ واپس آیا تو اُس کی صندوق ٹوٹی ہوئی تھی۔سامان بکھڑا پڑا تھا اور جوتا اس کے سامنے گویا ہنس رہا تھا،اُس کو بہت غصہ آیا اور وہ رات کو ہمسائے کے گھر کے قریب ایک گڑھا کھود کر وہاں اُن کو دفن کردیا۔ اُس دوران ہمسائے نے قاسم کو دیکھ لیا اور اِس شک میں شاید وہ اُس کے مکان کوگرانے کی کوشش کر رہے تھے یا کوئی تعویز دفن کررہے تھے۔
ہمسائے نے جوتا دیکھ کر ابوقاسم کوپہچان لیا اور حاکم کی عدالت میں لے گئے۔ عدالت میں قاضی نے آپ کو دوبارہ سزا دی اور جرمانہ کیا۔اِس دفعہ سزا کے بعد گھر آئے اور جوتے کو غصے سے چھت پر پھینگ دیا۔ کچھ دن بعد ایک کتّا چھت پر گیا اور جوتے کو منہ سے گرایا جو سیدھے نیچے ایک راہ گیر کے سر پر لگی۔ راہ گیر زخمی ہوا اور ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ لوگوں نے ابوالقاسم کے جوتے کو پہچان لیا اور اُن کو پکڑکر پھر عدالت کے حوالے کیا۔ عدالت نے سخت سزا دی اور جرمانہ کیا اور اُن کو سخت تنبیہ کی۔سزا کاٹنے کے بعد ابوقاسم گھر آئے اور وہی جوتے لیکر شہرکے قاضی کے پاس گئے اور حلف نامہ پیش کیا جس میں انہوں نے جوتوں کا عاق نامہ تحریر کیا تھا۔ قاضی کو انہوں عرض پیش کی آئندہ میں اِن جوتوں کا میں کوئی ذمہ دار نہیں اور نہ ہی یہ میرے ہیں میں اِن سے لا تعلقی کا اظہار کرتا ھوں ۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین