رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے ضرور دعا کرتا
کہ عذاب قبر تمہیں بھی سنا دے ۔صبح شام ان پر آگ کو پیش کیا جاتا ہے اور قیامت کے دن کہا جائے گا اے آل فرعون ادخلو آل فرعون اشد العذاب فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں جھونک دیا جائے امام ابن کثیر اس آیت کی روشنی میں فرماتے ہیں اہل سنت والجماعت نے اس آیت سے استدلال لیا ہے کہ عذاب قبر ہو گا براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رواتی کرتے ہیں بخاری کی روایت ہے مسلم میں بھی بیان ہوئی ہے جو قبر میں جائے گا اسے کہا جائے گا من الربک تیرا رب کون ہے فیقول ربی اللہ میرا رب اللہ ہے ونبی محمد اور میرے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہیں یہ برائت ہے یثب اللہ سے کہ اللہ ثابت کرنے والا ہے اس کو عطا کرے گا بخاری کی روایت ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتی ہیں ولقد اوحی الی انکم تفتنون فی القبور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری طرف یہ وحی کی گئی کہ تمہاری آزمائش قبروں میں کی جائے گی مثل فتنۃ الدجال جتنا دجال کا فتنہ ہوگا۔اس لئئے ہمیں توبہ کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہئے۔.
معروف معانی میں توبہ گناہوں کی آلودگی سے احکامِ الٰہیہ کی اطاعت و فرمانبردای کی طرف ظاہری اور باطنی طور پر رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا ۔توبہ کا ایک معنی نادم و پشیمان ہونا بھی ہے حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے مروی حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : (گناہ پر) پشیمان ہونا توبہ ہے۔ توبہ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اﷲ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اﷲ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری علیہ الرحمۃ نے فرمایا : توبہ کا مطلب ہے قابلِ مذمت افعال کو قابلِ ستائش افعال سے تبدیل کرنا اور یہ مقصد خلوت اور خاموشی اختیار کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں توبہ کا مفہوم یہ ہے کہ شریعت میں جو کچھ مذموم ہے اسے چھوڑ کر ہدایت کے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے، پچھلے تمام گناہوں پر نادم ہو کر اﷲ سے معافی مانگ لے کہ وہ بقیہ زندگی اﷲ کی مرضی کے مطابق بسر کرے گا اور گناہوں کی زندگی سے کنارہ کش ہو کر اﷲ کی رحمت و مغفرت کی طرف متوجہ ہو جائے گا اس عہد کرنے کا نام توبہ ہے۔ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رک جانا توبہ ہے جبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔ توبہ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ ھود میںتوبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے ۔گویا گناہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اﷲ کی طرف متوجہ ہونا توبہ ہے جبکہ اﷲ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرکے اپنے مولا کو منانا استغفار ہے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین