یہ پھل “انار کلی” یا “انار پھلی” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم لوگ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ پھل خون پیدا کرتا ہے
مگر کیا آپ لوگ اس پھل کی اساس یعنی اس کے پودے کے بارے میں جانتے ہیں کہ اسے قرآن پاک نے کس طرح بیان کیا ہے ؟ زقوم کا ؑ کا بیان قرآن کریم میں اسطرح ہوا ہے(1) سورۃبنی اسرائیل آیت نمبر60۔۔۔ترجمہ : یاد کرو اے نبی! ہم نے تم سے کہہ دیا تھاکہ تیرے رب نے ان لوگوں کو گھیر رکھاہے اور جو کچھ بھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے اس کواور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ہم نے ان لوگوں کے لئے بس ایک فتنہ بناکر رکھ دیا، ہم انہیں تنبیہ پر تنبیہ کئے جارہے ہیں مگر ہر تنبیہ ان کی سرک۔شی میں اضافہ کئے جاتی ہے۔
(2) سورۃ الصّٰفّٰت آیت نمبر62-68۔۔۔ ترجمہ : بولو یہ ضیافت اچھی ہے یازقوم کا درخت ہم نے اس درخت کو ظالموں کے لئے فتنہ بنا دیا وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطان کا سر۔ جہنم کے لوگ اسے کھائیں گے اوراسی سے پیٹ بھریں گے پھر اس پر پینے کے لئے ان کو کھولتا ہوا پانی ملے گا اوراس کے بعد ان کی واپسی اسی آتشی دوزخ کی طرف ہوگی۔(3)سورۃ الدّخّان آیت نمبر43تا46۔۔۔ ترجمہ: بیشک زقوم کا درخت بڑے مجرم کا کھانا ہوگا تیل کی تلچھٹ کی طرح پیٹ میں کھولے گاتیز گرم پانی کی طرح۔(4) سورۃ الواقعۃ آیت نمبر52-56۔۔۔۔ ترجمہ : تم زقوم کے درخت کی غذا کھانے والو! اسی سے تم پیٹ بھرو گے اوراوپر سے کھولتاہوا پانی تونس لگے اونٹ کی طرح پیو گے۔ یہ ہے انکی ضیافت کا سامان روز جزا میں۔اَلْمُنْجِدْ میں زقوم کے معنی جہنم کے اورایک مہلک غذا کے بتائے گئے ہیں۔ بعض لغات میں اسے ایک ایسا خاردار پودا کہا گیا ہے جو مزہ میں انتہائی تلخ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اس پودے کا تذکرہ تین مرتبہ زقوم کے نام سے ہوا ہے
جب کہ ایک بار اسے شجر ملعونہ کہا گیا ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل)مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن میں سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر بیان کرتے ہوئے زقوم کو تھوہر کادرخت بتایا ہے تفسیر ماجدی میں زقوم کوایک ایسا درخت کہا گیا ہے جو عرب میں تلخی کے لئے مشہور تھا۔اس کا نام فارسی میں حنظل بھی دیاگیا ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی نے بیان القرآن میں زقوم کی بابت فرمایا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں پیدا ہوگا جب کہ تفسیر حقانی میں سے تھوہر یا سیہنڈ کا پیڑ کہاگیا ہے۔قرآن کریم کے مفسرین کی اکثریت نے زقوم کو تھوہر کی ذات کا پودا کہا ہے جو صرف قرینِ قیاس ہی نہیں بلکہ سائنسی اعتبار سے بھی درست نظریہ معلوم ہوتا ہے، تھوہر کادرخت پودوں کی اس جنس سے تعلق رکھتا ہے
جس کو اُفوربیا کہتے ہیں اس کی ایک ہزار سے زیادہ اقسام دنیا کے مختلف علاقوں میں، خاص طور سے افریقہ اورایشیا کے گرم خطوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ سب کے سب تلخ اور زہ۔ریلی ہوتی ہیں اور ان سب سے ایک قسم کادودھ لیٹکس نکلتا ہے جو جم کر گوند کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہندوستان میں کئی درجن اقسام کے افوربیا پائے جاتے ہیں جن میں کافی کیکٹس نما ہوتے ہیں اور زیادہ تر مقامی زبانوں میں تھوہر، تھوریا، سیہنڈ کہلاتے ہیں۔ انہیں سے ملتے جلتے افوربیا عرب کے علاقے میں حجاز سمیت کئی جگہوں پر پائے جاتے ہیں جہاں ان کو لبین کہتے ہیں۔ اسی طرح افریقہ میں بھی اس کی بہت سی قسمیں ملتی ہیں اوران میں سے چندایسی ہیں جو زہریلی ہونے کی بنا پر طبی اہمیت کی حامل ہیں۔
تھوہر یعنی افربیاؔ کے جہنمی پودوں کو عام طور سے لوگ گھروں میں لگانا معیوب سمجھتے ہیں جو سائنسی اعتبار سے ایک معقول طرز عمل ہے کیونکہ افربیا کے پودے اتنے زہریلے ہوتے ہیں کہ ان تک کسی کی رسائی، خاص طور سے بچوں کی قربت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس سے نکلے ہوئے دودھ کے چھینٹے پڑنے سے آنکھ کی روشنی تک جاتی رہتی ہے۔ جب کہ آبلہ یا زخم ہوجانامعمولی بات ہے۔ راجستھان کے گاؤں وقصبات میں کافی واقعات ہوتے ہیں جن میں اس کے دودھ کے غلطی سے آنکھ میں لگ جانے سے لوگ اندھے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں جان بوجھ کر جانوروں کواندھاکرنے کے لئے زقوم ہند کااستعمال کیا جاتاہے۔ حالیہ تحقیق سے اس بات کا بھی علم ہوا ہے کہ بعض یوفربیا کے پودے انسانی جسم میں کینسر پیدا کرتے ہیں اسی لئے ان کوسرسینوجینک کہا جاتا ہے۔کیا آپ اب بھی اس پھل کو کھانا چاہیں گے ؟؟؟ خون بنانے کے لئے بہت سے اور اچھے اور مفید پھل مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ فیصلہ آپ کا.آپ احباب کے قیمتی وقت کا شکریہ۔