منٹو نے عورت کی نفسیات اور فطری جذبات و ہمت پر بہت کچھ لکھا۔ اور عورت کے لیے ایک جملہ جو کہ انمول کہا: عورت کبھی بدصورت نہیں ہوتی۔ مرد کا عشق عورت کی محبت سے کئی گنا مضبو ط ہوتا ہے عورت محبت کرلے تب بھی رسم ور واج کی زد میں کسی اور کے ساتھ گھر بسالیتی ہے۔ لیکن مرد اگر عشق کرلے تو وہ اس عورت کو کبھی کسی دوسرے مرد کے لیے نہیں چھوڑتا کیونکہ یہ اس کی انا برداشت نہیں کرتی مگر بہت مشکل سے ہزاروں میں سے کسی ایک مرد کو عشق ہوتا ہے۔ صبر کبھی نہ مانگو کیونکہ صبر کسی چیز کو کھو دینے کے بعد حاصل ہوتا ہے
ہمیشہ سکون مانگو، سکون حاصل کرنے کے لیے کسی چیز کو کھونا نہیں پڑتا۔ میں نے آزاد کردیا اور ہروہ رشتہ ہروہ انسان جو بیزار ہے مجھ سے مجھے نہ اب کسی کی خواہش ہے نہ ہی کسی کی خواہش کا احترام کرنا ہے، نہ ہی جانے والے کوروکنا ہے نہ ہی آنے والے کا استقبال کرنا ہے ، آنے والااپنی حالت کاخودذمہ دار ور جانے والا خود اپنے فیصلے کا اختیاررکھتا ہے۔ عورت کی بے بسی کی آخری حد ہوتی ہے جب وہ کہتی ہے اللہ کا واسطہ ہے مجھے چھوڑ کر مت جاؤ اور ظلم کی انتہاء ہوتی ہے جب اللہ کے واسطے کا مان نہ رکھاجائے ،انا،غرور ، تکبر اور ضد کے نشے میں کون تو کیا ہے تو؟
مر جاتی ہے عورت لیکن اس کو جواب نہیں ملتا کہ کون ہوں میں ؟ کیا تھ اور کیا ہوگئی ہوں میں ۔ آسمان کی بلندی سے زمین پر آگرنا۔ آہ ظالم بہت اذیت ناک وقت ہوتا۔ عورت کے لیے جب مرد پر تکبر کا نشہ چڑھا ہو اور آہیں سسکیاں آنسو تڑپ ، یہ سب بے معنی ہوجاتے اور بے شک اللہ کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا۔ جب انسان اتنا خاموش ہوجائے کہ اپنے حق کے لیے بھی نہ بولے تو سمجھ لو کہ وہ اپنے اندر بہت کچھ دفن کرچکا ہے محبت جیسی بھی ہو سجدہ کرناضرورسکھادیتی ہے۔ خالص اور پاکیزہ عورت ہی مرد کا غرور ہوتی ہے۔ مرد سر اٹھا کر چل سکتا ہے۔ اس کی زندگی کا سکون و اطمینان صرف ایک نیک اور باحیا عورت سے ممکن ہے۔
نفرتوں کے ہجو م میں ہم یہ بات بھی بھو ل گئے ۔ کہ کسی سے مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ ہے ۔ انتظا ر ایک اذیت ہے پھر چاہے وہ بستر پرلیٹ کرنیند کا ہو، چوکھٹ پر بیٹھ کر محبوب کا ہو، یا زندگی سے ہار کر موت کا۔ کبھی کبھی انسان کو دکھ اتنی اونچائی پر بٹھا دیتا ہے اس لفظوں ، لہجوں اور احساسات کی ساری بستیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ ہم کسی کو خود کے ساتھ باندھ نہیں ، لیکن ان سے وقتاً فوقتاً تعلق ضرور برقرار رکھ سکتے ہیں اور ایسا صرف تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی انا اور ہڈ دھرمی کو پیچھو چھوڑ کر عاجزی اور محبت کا راہ چنی۔ خونی رشتوں میں جب دوریاں بڑھ جاتی ہیں۔ تو اپنوں کی خبریں غیروں کی زبانی سننے کو ملتی ہیں۔ زندگی میں ہمیشہ وہ لوگ پرسکون رہتے ہیں جو پوری نہ ہونے والی خواہشوں سے زیادہ ان نعمتوں پرشکر ادا کرتے ہیں۔