ماں مجھے اور نہیں پڑ ھنا بس مجھے اب بالکل بھی یونی نہیں جانا ارے بیٹا تم پاگل تو نہیں ہوگئی تمہارا آخری سمیسٹر چل رہا ہے۔ کتنی مشکل سے تمہارے ابا نے محنت مزدوری کر کے تمہارے اب تک کے اخراجات اٹھائے ہیں۔ اور اب آکے تم ضد پر آ گئی کہ مجھے اب نہیں
پڑ ھنا آخر ایسی کون سی بات ہو گئی ہے کچھ بتاتی بھی نہیں ہو بس چپ چاپ رہنے لگ گئی ہو۔ ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ نہیں پڑ ھنا تو بس نہیں پڑ ھنا مگر نہ پڑھنے کی وجہ بھی تو ہو گی اس وقت تمہارے ابا کی کتنی منتیں کر کے تمہار اداخلہ بھجو ایا تھا اس وقت تو تمہاری ضد تھی کہ مجھے آگے پڑھنا ہے۔ اب جب پڑ ھائی ختم ہو نے لگی ہے۔تو تم ضد کرنے لگی ہو۔ اور اچھا خاصہ تو پڑ ھ رہی تھی آخر تمہیں ایک دم کیا ہو گیا ہے استادوں نے تو کچھ نہیں کہا۔ نہیں انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا بس میرا پڑ ھائی سے دل اکتا گیا ہے۔ ماں بس مجھے فورس مت کریں۔ آؤ بیٹا اطمینا ن سے بات کرتے ہیں۔ آخر ایسی کیا بات ہے جو آج اتنی سہمی سہمی سی لگ رہی ہو۔ مگر آسمہ کے ساتھ جو پیش آیا تھا وہ ماں کو بھی بتانے سے ڈر رہی تھی۔ وہ بتانے سے گھبرا رہی تھی مگر ماں کے اصرار پر اسے وجہ بتانی ہی پڑ ی۔ وہ ماں جب میں آ ج جب بتانے سے پہلے ہی اس کی آ نکھوں سے آ نسو ٹپکنے لگے ،میرا پتر گھبرا کیوں رہی ہے۔ بتاؤ نہ کیا ہوا وہ ماں آج میں جب یو نی سے واپس آ رہی تھی۔ تو کچھ لڑ کو ں نے آسمہ کی زبان ایک بار پھر خاموش ہوگئی۔ اس بار بھی کچھ نہ بتا سکی۔ اب ماں کا چہرہ بھی پریشانی کے آثار دیکھانے لگا۔ میرا پتر رو مت کیا کیا لڑ کو ں نے مجھے بتاؤ میں خود جا کر ان کی خبر لوں گی۔ ماں اپنی بیٹی کو حوصلہ دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ آسمہ ایک بار پھر اپنی بات کو آگے بڑ ھانے لگی۔ اب اشکوں کے ساتھ سسکیاں بھی محسوس ہو نے لگیں وہ ماں وہ ماں جب میں یو نی سے نکلی تو کچھ لڑکو ں نے میری عزت آسمہ کی زبان اس بار بھی کچھ نہ کہہ سکی۔ اس بار آسمہ ماں کے سینے سے لگ کر زارو قطار رونے لگی۔ عزت لفظ سنتے ہی ماں کے چہرے کا رنگ بھی اڑ گیا۔
وہ گھبرا کر کہنے لگی کہ کیا کیا لڑ کوں نے تم آ گے بو لتی کیوں نہیں ہو۔ کیا کیا لڑ کو ں نے مجھے ساری بات بتاؤ۔ آسمہ تم ساری بات بتاؤ ۔ کیا کہا آوارہ کتو ں نے ۔ اگر لڑکی خود کو چھپا کے رکھے تو غیر مرد کی جرات نہیں ہو سکتی کہ کوئی اس کی طرف میلی آ نکھ سے بھی دیکھے اور میں نے بھی ہمیشہ اپنے آپ کو چھپا کے ہی رکھا۔ پھر کیوں میری عزت کو اچھا لا گیا کیوں ماں کیوں ہوا میرے ساتھ ایسا۔ آج کے بعد تم یونی نہیں جاؤ گی۔ میں نے اور تمہارے ابا نے پہلے ہی یو نی میں داخلہ لینے سے منع کیا تھا۔ مگر تمہاری ضد تھی کہ محلے کی لڑ کیوں جتنی پڑ ھنا چاہتی ہے۔ لڑکی اندر گئی اور اس کے والد صاحب بھی آگئے ۔ لڑکی اندر پلنگ پر لیٹی ابھی بھی رو رہی تھی۔ تو نذیر صاحب پو چھتے او میرا پتر رو کیوں رہی ہو۔ آسمہ کی ماں کہتی ہے میں بتاتی ہوں۔ آسمہ کیوں رو رہی ہے۔ پیچھے سے ماں کی آ واز سنا ئی دی۔ وہ دوسرے کمرے میں لے گئی اور کہا کہ کل سے آسمہ یو نی نہیں جائے گی مگر ہوا کیا ہے۔ اس نے ساری بات اپنے شو ہر کو بتا دی۔ یہ سب سنتے ہی وہ ساری بات سمجھ گئے۔ باپ بیٹی کے کمرے پر گیا اور بیٹی سے معافی مانگنے لگا کہ مجھے معاف کر دو بیٹی۔ اب تمہاری طرف کوئی آ نکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا بھروسہ رکھو مجھ پر۔ مگر ابا آپ اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ کسی کو روک لو۔ ہاں میں اتنی طاقت نہیں رکھتا لیکن اوپر والا بہت طاقت رکھتا ہے۔ آج تیس سال گزر چکے ہیں اس بات کو تو مجھے میرا قرض مل چکا ہے جو کہ میں نے اٹھا یا تھا۔ اب وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا۔ اس کے بعد روز یونی جاتی تھی آ سمہ مگر کبھی کسی نے اس کی طرف آ نکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ اس سب سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہمارے گھر کی عزت بچا نا ہمارے ہاتھوں میں ہی ہے۔