کتنے پاکیزہ ہوتے ہیں وہ جذبات جو صرف ان لوگوں سے وابسطہ ہوتے ہیں۔ جن سے مل کر ہمیں اللہ سے مل جاتا ہے۔ کوئی خوشی، کوئی رشتہ ، کوئی جذبہ ، کبھی مستقل نہیں ہوتا۔ ان کے بھی پاؤں ہوتے ہیں بس ہمارا سلوک اور رویہ دیکھ کر کبھی یہ قریب آجاتے ہیں۔ اور کبھی آہستہ آہستہ دور چلے جاتے ہیں ۔ ایک زخم کو بھرنے کےلیے ضروری ہے کہ اسے کریدا نہ جائے۔ زندگی میں انسان کو ایک عادت ضرور سیکھ لینی چاہیے جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اسے بھو ل جانے کی عادت یہ عادت بہت سی تکلیفوں سے بچالیتی ہے۔ جب آپ محبت نام کٹورا لے کر کسی کے پیچھے نکلتے ہیں تو آپ کو کئی چیزوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ ان میں سے سرفہرست چیز عزت نفس ہے۔ جو لوگ ٹھوکریں کھالیتے ہیں۔
وہ دل کے مشورے پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ محبت کسی کے لیے اپنی جان قربان کرنا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جان توا للہ کی امانت ہے ہمارے پاس محبت تو کسی کی رضا اور خوشی کے لیے اپنی رضااور خوشی قربان کرنے کا نام ہے۔ کسی کو اتنا پیاردو کہ گنجائش نہ چھوڑو اگر وہ پھر بھی تمہارا نہ بن سکے تو اسے چھوڑ دو کیونکہ وہ محبت کا طلب گار ہی نہیں بلکہ وہ ضرورت کا پجاری ہے اکثر لوگ لڑائی کے دوران یہ بات کہہ کر لڑائی جاری رکھتے ہیں کہ ہم سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی ۔ حالانکہ غلط بات برداشت کرنا ہی تو صبر ہے صیحح بات برداشت نہیں کی جاتی ۔
تسلیم کی جاتی ہے ۔ عاجزی یہ ہے کہ انسان دوسروں کے اندر کوئی ایک برائی دیکھے تو اسے اپنی دس یاد آجائیں ۔ دوسروں کی تو قعات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے۔ کہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ دوسرا ہم کو چھوڑنا دے ۔ عورت رہ سکتی ہے ۔ دلیل نہیں پیش کر سکتی ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل اس کی آنکھ سے ڈھلکا ہوا آنسو ہے۔ جب وقت خوشی میں گزرتا ہے تو اس کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا پچاس برس ساتھ گزرے لیکن لگتا ہے جیسے اشفاق احمدمیرے گھر چند روز مہمان آئے اور چلے گئے۔
عشق وہ بیماری ہے جس سے انسان تندرست بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن “یاد” وہ نیم حکیم ہے جس کی ہر “پڑیا” آپ کے مستقبل کی جان خطرے میں ڈالتی چلی جاتی ہے۔ زندگی کچھ ایسی بے معنی ہوگئی ہے۔ کہ انسانوں سے تعلق ٹوٹتے جارہے ہیں۔ اور اپنوں سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں۔ اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ عورت کا یہ ہنر ہے کہ وہ مرد کوکئی طرح کی موت دے سکتی ہے۔ عورت کو ڈر ہر مرد سے لگتا ہے سوائے اس کے جو اسے پسندآجائے پھر چاہے وہ شرابی، زانی یا قاتل ہی کیوں نہ ہو۔
کسی بھی حسین عورت کا کسی اور کے ساتھ ہونا ہمیں ہماری حق تلفی محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب کوئی لڑکا خراب ہوجائے تو کہتے ہیں کہ اس کی شادی کرادو اور جب لڑکی خراب ہوجائے تو کہتے ہیں اس سے شادی مت کرو۔ بستر، روٹی ، کپڑا ، بچے ، کمرہ ، شاعری ، ان سب سے باہر بھی اک عورت ہے۔