بہاولپور میں ایک نواب صاحب نے مدرسہ بنوایا‘ اس نے مقامی علماء سے کہا کہ عمارت تو میں بنوا دیتا ہوں مگر آباد کیسے ہو گی؟ علماء نے کہا کہ ہم آپ کو ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بتائیں گے آپ انہیں لے آنا مدرسہ چل جائے گا۔ اس نے کہا ہیرا تم ڈھونڈنا قیمت ہم لگا دیں گے‘ نواب صاحب کو بڑا ناز تھا پیسے کا چنانچہ جب عمارت بن گئی تو اس نے علماء سے پوچھا‘
بتاؤ کون سا ہیرا ڈھونڈ ہے؟ کہنے لگے قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ۔ اس نے علماء سے پوچھا کہ حضرت کی تنخواہ کتنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت کی تنخواہ چار پانچ روپے ہو گی۔ اس دور میں اتنی ہی تنخواہ ہوتی تھی۔ کہنے لگا جاؤ اور میری طرف سے حضرت کو سو روپے ماہانہ کا پیغام دے دو‘ اب جس آدمی کو پانچ روپے کی بجائے سو روپے ملنا شروع ہو جائیں تو کتنا فرق ہے۔ چنانچہ علماء بڑے خوش ہوئے کہ جی ہاں! اب تو حضرت ضرور آ جائیں گے‘ دیوبند جا کر حضرت سے ملے‘ حضرت نے ان کی خوب خاطر تواقع فرمائی‘ پوچھا کیسے آنا ہوا؟ کہنے لگے
حضرت! نیا مدرسہ بنایا ہے آپ وہاں تشریف لائیں۔ نواب صاحب نے آپ کیلئے سو روپے ماہانہ مشاہرہ مقرر کیا ہے۔ حضرت نے فرمایا بات یہ ہے کہ میرا مشاہرہ تو پانچ روپے ہے اس میں سے تین روپے میرے ذاتی خرچہ کے ہیں اور دو روپے میں غریبوں‘ مسکینوں‘ یتیموں میں خرچ کر دیتا ہوں اگر میں وہاں چلا گیا اور سو روپیہ تنخواہ ہو گئی تو میرا خرچہ تو تین روپے رہے گا اور باقی ستانوے روپے غریبوں میں تقسیم کرنے کیلئے مجھے سارا دن ان کو ہی ڈھونڈنا پڑے گا اور میں پڑھا تو نہیں سکوں گا‘ لہٰذا میں وہاں نہیں جا سکتاایسی دلیل دی کہ ان علماء کی زبانیں گنگ ہو گئیں اسے زہد فی الدنیا کہتے ہیں۔