مریم نہم جماعت کی طالبہ تھی۔وہ درمیانے درجے کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔پڑھائی میں اچھی ہونے کے ساتھ سلیقہ شعار لڑکی تھی،مگر اسے شاہ خرچی کی ایک بہت بُری عادت تھی۔وہ ہمیشہ مہنگی سے مہنگی چیزوں کو فوقیت دیتی تھی۔
اس کا خیال تھا کہ مہنگے کپڑے اور جوتے پہننے سے اور برانڈ اشیاء استعمال کرنے سے انسان میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ منفرد نظر آتا ہے۔اس کی امی اسے بہت سمجھاتیں کہ اچھاپہنا، اوڑھنا بُری نہیں،مگر ضروری نہیں کہ اس کے لئے فضول خرچی بھی کی جائے۔
مریم چونکہ اپنے ابو کی لاڈلی تھی،لہٰذا وہ اس کی ضد کے آگے بے بس ہو جاتے۔مریم کی تایا زاد بہن کی شادی ہونے والی تھی۔مریم امی کے ساتھ شادی کے لئے کپڑے اور جوتے وغیرہ لینے بازار چلی گئی۔
(جاری ہے)
کپڑے کی دکان پر اس کی امی کو خوبصورت اور نفیس ریشمی کپڑے بہت پسند بھی آئے،مگر مریم نے انھیں نظر انداز کر دیا اور اپنی امی سے دوسری دکان پر چلنے کی ضد کرنے لگی۔
وہ دونوں دکان پر پہنچ گئیں۔مریم بڑی دکان کے اندر داخل ہوتے ہی کپڑوں کے ڈیزائن دیکھنے لگی۔کچھ دیر بعد مریم ایک فراک اُٹھائے اپنی امی کے پاس آئی۔
اس کی امی فراک کی قیمت پانچ ہزار دیکھ کر حیران رہ گئیں،مگر مریم کی ضد تھی کہ اسے وہی فراک لینی تھی۔
آخر اس کی امی نے رقم ادا کرنے کے لئے پرس کھولا تو وہ پریشان ہو گئیں۔امی نے بتایا کہ گھر سے نکلتے ہوئے انھوں نے پرس میں پانچ ہزار کے دو نوٹ رکھے تھے،مگر اب ایک نوٹ غائب تھا،لہٰذا انھوں نے وہ فراک اسی دکان پر چھوڑی اور واپس پہلی دکان پر جا کر اپنے اور مریم کے لئے سوٹ خریدے اور گھر واپس آگئے۔
سوٹ بہت خوبصورت تھے ،مگر مریم کو افسوس تھا کہ وہ مہنگا سوٹ نہ خرید سکی۔مریم کی امی فوراً اس کے دل کا حال سمجھ گئیں وہ مریم کو سمجھانے لگیں:”دیکھو بیٹا!ضروری نہیں انسان مہنگے کپڑے پہن کر ہی دلکش لگے۔وہ مناسب قیمت میں بھی خود کو سنوار سکتا ہے۔
عام کپڑے کو اس طرح تیار کرکے پہننا کہ وہ دیدہ زیب لگے،یہ ایک فن ہے۔اس سے انسان میں اعتماد آتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے مناسب پیسوں میں اچھی چیزیں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔“
شادی کی تقریب میں مریم بھی اپنی رشتے کی بہنوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئی۔مریم کی امی نے اس کی طرف دیکھا تو انھیں مریم کی آنکھوں میں اطمینان کی چمک دکھائی دی۔وہ خوش تھیں کہ مریم ان کی بات کو مکمل طور پر سمجھ چکی تھی۔