Home / آرٹیکلز / مفلوک الحال بڑھیا

مفلوک الحال بڑھیا

یا سے کہا۔ ’’بی بی، لو تمہارا کام ہوگیا۔ اب خوش رہو۔‘‘

بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبردار سے پوچھا۔ ’’کیا سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے؟‘‘
نمبردار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔

اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آگیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بوڑھے بھی آبدیدہ ہوگئے۔
یہ سولہ آنے واحد ’’رشوت‘‘ ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کردیا۔

(شہاب نامہ سے اقتباس ۔ از قدرت اللہ شہاب)

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *