آج بھی شوہرلیٹ آیا۔۔۔ وہ بچوں کو سلا کر کھانے کا پوچھنے آئی مگر کھانا کھایا جا چکا تھا پچھلے ایک ہفتے سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ وہ چونکہ اکیلی رہتی تھی اس لئے کام شام نمٹا کر فارغ ہو جاتی تو محسوس ہوتا کہ کوئی ہو جس سے باتیں کرے ۔اس شام بھی جب میاں سے استفسار کرنے پہ کوئی جواب نہ ملا تو خاصی رنجیدہ سی ہو گئی۔
اگلے دن اتفاق سے ساس گاؤں سے ملنے آگئیں۔ گھر میں ایکدم چہل پہل سی ہو گئی۔
رات کو میاں صاحب حسبِ معمول لیٹ آئے اور پھر کھانا بھی گول کر گئے تو ساس اماں بھی لاونج میں آکر بیٹھ گئیں اور بیٹے سے سوال جواب شروع کر دئیے۔۔ جناب بیوی کو تو گول مول کر جاتے تھے مگر ماں کی جراح کے آگے زیادہ ٹک نہ پائے۔۔ دو تین دن بعد ہی روٹین درست ہونے لگی اور جناب اماں کی نصیحتوں کے باعث وقت پہ آنے لگے۔
مہینہ بعد ساس اماں واپس جانے لگیں تو اس نے ایک دم ہاتھ چوم لئے۔۔اماں آپ آتی رہا کریں میرا دل لگتا ہے ۔۔۔
اور سچ تو یہ تھا کہ بزرگوں کے رعب سے اولاد بچوں والی ہو کر بھی سدھری رہتی ہے۔
بزرگوں کی قدر کیجئے۔