ایک ریاست میں ایک بوڑھے شخص کو روٹی چوری کرتے پکڑا گیا، علاقے کے کچہ لوگ اسے پکڑ کر وقت کے قاضی (جج) کے پاس لے گئے، قاضی نے بوڑھے بابا سے کافی سوالات کئے۔لیکن بابا نے کوئی جواب نہیں دیا ، بالآخر قاضی نے فیصلہ یوں سنایا۔ بابا جی روٹی چوری کرنے کے جرم میں ایک درہم ( روپیہ۔ ڈالر ) تندور کے مالک کو بطور جرمانہ ادا کرے گا ۔ یہ سنتے ہی لوگوں نے فاتحانہ نعرے لگانے شروع کئے قاضی صاحب نے کہا کہ ٹہرو ابھی فیصلہ کی دوسری قسط باقی ہے ، سب لوگ سمجھے کہ اب شاید بابا کو قید کی سزا بھی ہوگی۔ لیکن قاضی
کے فیصلہ نے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ قاضی نے گرجدار آواز میں فیصلہ سنایا کہ جتنے لوگ بابا جی کو پکڑ کر لائے ہیں وہ سب اور جو لوگ بابا جی کے گہر کے آس پاس تین گلیوں میں رھتے ہیں وہ سب ہر ماھ کی پھلی تاریخ کو پچاس درہم باباجی کو بطور جرمانہ ادا کریں گے۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو قاضی نے جواب دیا۔ نہ بابا کی عمر چوری کی ہے نہ بابا پیشہ ور چور لگتے ہیں
کیونکہ اگر چور ہوتے تو اپنی صفائی اچہے انداز سے پیش کرتے جیساکہ چوروں کا دستور ہے۔ بابا جی کو بھوک نے چوری تک پہنچایا ہے۔اس کا سب سے بڑا سبب بابا کے پڑوسی ہیں جنہوں نے کبھی بابا کی خبر نہ لی اس لئے بابا ایک روٹی کے چور ہیں جبکہ بابا جی کا پورا محلہ انسانیت کا چور ہے، جو سزا میں نے سنائی ہے حقیقت میں تمہارا فریضہ تھا جو تم ادا نہ کر سکے اسلئے اس کو جرم کا نام دیا گیا۔ قاضی کے فیصلہ نے بابا جی کے آنکھوں
سے آنسو نکال دئے جبکہ تماش بینوں کے گردن جھکا دی۔
