Home / آرٹیکلز / آخری پرچی

آخری پرچی

کبھی کبھی انسان کے ہاتھ میں کچھ نہین رہتا

سواۓ پچھتاوے کے
۔۔۔۔
جوانی چڑھ گئی تو میں گھر دیر سے آنے لگا، رات دیر تک گھر سے باہر رہنا اور سارا سارا دن سوئے رہنا معمول بن گیا ، امی نے بہت منع کیا لیکن میں باز نہ آیا۔ شروع شروع میں وہ میری وجہ سے دیر تک جاگتی رہتی بعد میں سونے سے پہلے فریج کے اوپر ایک چٹ چپکا کر سوجاتی، جس پر کھانے کی نوعیت اور جگہ کے بارے میں لکھا ہوتا تھا ۔ آہستہ آہستہ چٹ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور “گندے کپڑے کہاں رکھنے ہیں اور صاف کپڑے کہاں پر رکھے ہیں” جیسے جملے بھی لکھے ملنے لگے، نیز یہ بھی کہ آج فلاں تاریخ ہے اور کل یہ کرنا ہے پرسوں فلاں جگہ جانا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا ۔ ۔ ۔ ایک دن میں رات دیر سے آیا، بہت تھکا ہوا تھا۔ حسب معمول فریج پر چٹی لگی ہوئی دیکھی لیکن بغیر پڑھے میں سیدھا بیڈ پر گیا اور سو گیا۔ صبح سویرے والد صاحب کی چیخ چیخ کر پکارنے سے آنکھ کھلی۔ ابو کی آنکھوں میں آنسو تھے انہوں یہ اندوہناک خبر سنائی کہ بیٹا تمھاری ماں اب اس دنیا میں نہیں رہیں ۔ میرے تو جیسے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، غم کا ایک پہاڑ جیسے میرے اوپر آگرا۔ ۔ ۔ ۔ ابھی تو میں نے امی کے لئے یہ کرنا تھا ، وہ کرنا تھا۔ ۔ ۔ ابھی تو میں سدھرنے والا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو امی سے کہنے والا تھا کہ اب میں رات دیر سے نہیں آیا کروں گا ۔ ۔ ۔

تدفین وغیرہ سے فارغ ہوکر رات کو جب میں نڈھال ہوکر بستر پر دراز ہوا تو اچانک مجھے امی کی رات والی چٹی یاد آگئ، فوراً گیا اور اتار کر لے آیا، اس پر لکھا تھا:-

“بیٹا آج میری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے، میں سونے جار رہی ہوں ، تم جب رات کو آؤ تو مجھے جگا لینا، مجھے ذرا ہسپتال تک لے جانا۔“

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *