Home / آرٹیکلز / چھوٹی سی انا

چھوٹی سی انا

فارس تم ہمیشہ ہی ایسا کرتے ہو وہ چیختے ہوئے بولی

فارس چونکتے ہوئے ارے اب میں نے کیا کر دیا

آپ کچھ نہیں کرتے سب میں ہی کرتی ہوں پاگل ہوں نا وہ غصیلے لہجے میں زور سے چلا رہی تھی دیکھو 4 دن سے کہہ رہی ہوں پانی والی موٹر خراب ہے وہ ٹھیک کرو دو اور یہ کمرے کی حالت دیکھو کپڑے کہاں رکھے ہیں تم نے اور اپنے جوتے دیکھو کہاں پہ رکھ دیئے اور شاور لے کر بس ہو گیا فارس میں تنگ آگئی ہوں فارس اٹھا اور جنت کے ماتھے کو چومتے ہوئے بولا میری جان نہ کیا کرو غصہ تم پہ تو میرے دونوں جہاں قربان میری جان جب تم ناراض ہوتی ہو نا تو مجھے لگتا ہے میری دنیا کھو گئی مجھ سے جانتی ہو نا جب تم اپنی ماما کے گھر جاتی ہو تو میرا کیا حال ہوتا ہے تمہارے بنا جنت میں ایک لمحہ بھی تیرے سائے سے دور نہیں گزار سکتا جنت تم کو خدا نے میرے نصیب میں لکھ کر مجھے دنیا میں ہی جنت دے دی بس تم ناراض نہ ہوا کرو فارس کی آنکھوں میں آنسو تھے جنت فارس کی آنکھوں کو چومتے ہوئے تو فارس میں بھی نہیں رہ سکتی نہ تمہارے بنا اب بچوں کی طرح رونا بند کرو میں مر تو نہیں رہی وہ فارس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی سہلا رہی تھی

فارس نے جنت کو بانہوں میں بھر کے سینے سے لگا لیا کاش جنت مجھے موت بھی آئے تو یوں تیری آغوش میں ہوں اور مر جاوں جنت کو جیسے دنیا بھر کی خوشیاں مل۔گئیں تھی اس کو اتنا پیار کرنے والا شوہر ملا تھا وہ ایک دوسرے کی سانس میں سانس لیتے تھے

ایک دن کوئی منحوس لمحہ آیا ان میں کسی بات کو لے کر جھگڑا ہو گیا وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پہ جھگڑنے لگے ایک دوسرے پہ الزام لگانے لگے ہر آنے والا دن ان میں دوریاں بڑھا رہا تھا وہ جیسے ایک دوسرے سے تنگ آ چکے تھے ہر بات پہ لڑنا فارس کا رات بھر گھر نہ آ نا جنت بھی بے پرواہ ہو گئی اور ایک دن جنت اپنی ماں کے گھر چلی گئی فارس نے بھی شکر کیا چلی گئی بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک جا پہنچی اور وہ آخری لمحہ وہ آخری قیامت وہ خزاں کا موسم وہ گلاب کا مرجھانا خوشبو کے آخری دن کانٹوں کا سفر سانسوں کا رشتہ محبت کی موت رشتے کا بھرم وعدوں کا سمندر قسموں کی کی یادیں ساتھ گزرے ہوئے لمحات جنت میں ملنے کا وعدہ آج سب کچھ خاک ہونے جا رہا تھا آج سب ختم ہونے جا رہا تھا وہ شدت کی چاہت ایک چھوٹے سے جھگڑے پہ ایک پل میں مٹنے والی تھی بڑوں کے فیصلے پہ وہ طلاق کے پیپر دستخط کر رہے تھے فارس پہ قیامت کا منظر تھا وہ جنت کو کھونا نہیں چاہتا تھا جنت بھی فارس کو سینے سے لگانا چاہتی تھی لیکن بات انا کی تھی انا قربان کرتا تو کون کرتا تھوڑا سا جھکنا اور محبت سینے سے لگ جاتی لیکن کیسے کس قیمت پہ جنت کی آنکھوں میں آنسوں کا ایک طوفان جو طلاق کے پیپر پہ گر رہا تھا جنت کانپ رہی تھی فارس کے ہاتھ میں پن تھا بس بچھڑنا ایک دستخط کی دوری پہ تھا فارس کی آنکھوں سے وہ محبت کے لمحے وہ جنت کی تھوڑی سی ناراضگی پہ جان نکل جانا سب آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا تھا

اتنی محبت پہ کوئی دوپہر کیسے آ سکتی ہے میرے بعد جنت کیسے رہے گی میں تو جنت کو ایک پل کے لیئے بھی جدا نہیں کر سکتا تھا اور آج میں اپنی جنت کو اس قدر دکھ دے رہا ہوں فارس یہ سب سوچ رہا تھا کے فارس کی ہمت صبر ٹوٹ گیا وہ بھاگتا ہوا جنت کے پاس گیا اور جنت کا قدموں پہ اپنے ہونٹ رکھ دیئے سب رشتہ دار پاس کھڑے دیکھ رہے تھے جنت نے بھی ایک لمحہ نہ لگایا اور فارس کو زور سے سینے سے لگا لیا اور چیخ چیخ کر رونے لگی فارس تم مجھے چھوڑنا چاہتے ہو فارس نے جنت کے ہونٹ پہ اپنی انگلی رکھ کر نہ میں سر ہلا دیا کانپتی آواز میں بولا ہم ایک چھوٹے سے جھگڑے کہ وجہ سے انا کی وجہ سے بچھڑ جائیں اتنی سستی تو نہیں ہے ہماری محبت وہ دونوں انا کو قربان کر کے ایک دوسرے کو معاف کر کے پہلے کی طرح زندگی گزارنے لگے

ذرا سوچیں چھوٹے چھوٹے جھگڑے ناراضگیاں انا غرور ہم کو کہاں سے کہاں تک لے جاتا ہے چاہیں تو تھوڑی ہمت کر کے ہم بھی فارس اور جنت کی طرح محبت کو سینے سے لگا سکتیں ہیں چاہیں تو بچھڑ کر زندگی بھر کے لیئے آنسو آنکھوں میں مقدر میں بسا سکتے ہیں

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *