میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں میرا نام شہزادی ہے سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا لیکن کچھ مجبوریوں میں سلیم سے شادی کر دی گئی مجھے سلیم سے بدبو آتی تھی ان کا کام اتنا اچھا نہ تھا خیر میں اللہ کے سامنے رو کر دعا مانگتی تھی یا اللہ یا تو سلیم کو مار دے یا پھر اس سے جان چھڑوا دے میری کسی طرح وہ جاہل سا بولنے کا بھی نہیں پتا میں ہر بات پہ سلیم کو بے عزت کر دیتی تنقید کرتی سلیم پہ غصہ کرتی سلیم مجھے پیار سے سمجھاتا کبھی چپ ہو جاتا کبھی غصہ ہو کر گھر سے باہر چلا جاتا میں ایک بار جھگڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی اور ضد کی کہ بس طلاق لینی ہے سلیم سے امی ابو نے بہت سمجھایا کے بیٹی لڑکا اچھا ہے نہ کرو ایسا بس بیچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے باقی کیا کبھی اس نے تم پہ ہاتھ اٹھا یا یا گالی دی ہو لیکن میں بس طلاق لینا چاہتی تھی میں نے جھوٹ بولا کے وہ خرچہ نہیں دیتا مجھے امی ابو نے سلیم کو بلوا لیا وہ میرے سامنے بیٹھا تھا امی ابو کہنے لگے سلیم کیوں بھئی تم شہزادی کو خرچہ کیوں نہیں دیتے سلیم بابا سے مخاطب ہو کر بولا انکل جی جو کما کر لاتا ہوں سب اخراجات نکال کر جو بچتا یے شہزادی ہاتھ کے پہ رکھ دیتا ہوں میرے چاچا تایا سب موجود تھے وہاں میں بولی مجھے 20 ہزار روپے ہر مہینے چاہئے بس اس شرط پہ ہی جاوں گی میں سلیم کے ساتھ سلیم خاموش ہو گیا سر جھکائے بیٹھا تھا چاچا بولے ہاں سلیم دے سکتے ہو خرچہ 20 ہزار کچھ لمحے خاموش رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا لمبی سانس لی بولا ٹھیک ہے میں شہزادی کو 20 ہزار روپے دوں گا الگ سے ہر مہینے میں نے دل کی گالی دی کمینے
دیکھنا جینا حرام کر دوں گی تمہارا میں سلیم کے ساتھ چلی گئی ہمارے بجلی پانی گیس کا بل راشن کھانا سب اخراجات بھی تھے سلیم سے جب بھی پوچھا کیا کام کرتے ہو تو کہتا گورنمنٹ آفس میں کام کرتا ہوں اس کے علاوہ نہ میں کبھی پوچھا نہ انھوں نے بتایا خیر سلیم مجھے ہر مہینے 20 ہزار روپے دیتا ایک دن میں نے کہا مجھے آئی فون لیکر دو میں بس تنگ کرنا چاہتی تھی کہ سلیم مجھے طلاق دے دے سلیم مسکرانے لگا میرے پاوں پکڑے اور بولا شہزادی لے دوں گا پریشان نہ ہو تم بس مجھے چھوڑ کر جانے کی بات نہ کیا کرو جو کہو گی کروں گا میں کبھی کھانے میں مرچ ڈال دیتی تو کبھی زیادہ نمک وہ تھکا ہارا کام سے آتا کھانا کھا کر بے ہوشی کی طرح سو جاتا نہ جانے کون سا کام کرتا تھا کہ اتنا تھک جاتا ہے میں جتنی نفرت کرتی تھی اس جاہل سے وہ اتنی محبت کرتا تھا میں ایک دن اپنی دوست کے ساتھ کار میں شاپنگ کرنے جا رہے تھے شہر کے سب سے مہنگے اور بڑے مال میں جب ہم ایک بس اڈے کے پاس سے گزرے تو میری زندگی نے جو لمحہ دیکھا میں بے جان ہو گئی وہ سلیم جسے میں بہت نفرت کرتی تھی جس کو میں جاہل ان پڑھ کہتی تھی جس کو کبھی میں نے پیار سے کھانا تک نہ دیا تھا جس کا کبھی حال نہ پوچھا تھا جسے میں انسان ہی نہیں سمجھتی تھی جسے میں قبول ہی نہیں کرنا چاہتی تھی وہ سلیم سر پہ بوجھ اٹھائے کسی کا سامان بس پہ چڑھا رہا تھا اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھی پرانے سے کپڑے پہنے پسینے سے شرابور پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی میں مر کیوں نہ گئی تھی وہ میرے لیئے کیا کچھ کر رہا تھا اتنے میں ایک شخص بولا اوئے چل یہ سامان اٹھا اور دوسری بس کی چھت پہ لوڈ کر سلیم کو شاید بھوک لگی تھی
ہاتھ میں روٹی پکڑی رول کیا ہوا ساتھ روٹی کھا رہا تھا ساتھ سامان اٹھا رہا تھا میں قربان جاوں میرا سلیم میرے لیے کس درد سے گزر رہا تھا میں آنسو لیے دیکھتی رہی کام ختم ہوا وہاں سائیڈ پہ ایک دکان کے سامنے زمین پہ بیٹھ گیا کتنی بے بسی تھکن تھی سلیم میں سارا دن وہاں درد سہنا رات کو میری باتیں وہ حادثہ تھا یا اللہ کی مرضی بس میرا دل بدل گیا میں بن بتائے کچھ خریدے گھر واپس لوٹ گئی بہت روئی تھی بہت زیادہ سلیم کو پلاؤ پسند تھا میں نے پلاؤ بنایا سلیم گھر آیا میں اسے کھانا نہیں دیتی تھی خود گرم کر کے کھاتا تھا گھر آیا مجھ سے سلام کیا کچن میں گیا پلاؤ دیکھ کر بولا شہزادی آج تو آپ نے کمال کر دیا ایک سال بعد پلاؤ کھانے لگا ہوں سلیم کھانا پلیٹ میں ڈال کر میرے پاس بیٹھ گئے کھانا کھانے لگے میں سلیم کی طرف دیکھے جا رہی تھی کتنا درد سہتا ہے اور بتاتا بھی نہیں میں کتنی اذیت دیتی ہوں کوئی شکوہ نہیں سلیم پہ آج مجھے بہت پیار آ رہا تھا دل چاہ رہا تھا سینے سے لپٹ جاوں سلیم نے کھانا کھایا پھر جیب سے پیسے نکالے کہنے لگا یہ لو شہزادی 20 ہزار میں چیخ چیخ کر رونے لگی سلیم کے پاؤں چوم لیے سلیم مجھے کچھ بھی نہیں چاہئے مجھے یہ پیسے نہیں چاہئے سلیم حیران تھا مجھے کیا ہو گیا ہے سلیم نے میرا ہاتھ تھاما بولے اگر یہ پیسے کم ہیں تو اور لا دوں گا مجھے چھوڑ کر نہ جانا کہنے لگے شہزادی بہت بھولی ہو تم پاگل تم بچھڑنے کے بعد کہاں بھٹکو گی خدا جانے بہت پیار کرتا ہوں نا تم سے اسلئے تم کو خود سے دور نہیں کر سکتا میں سلیم کے سینے سے لگ گئی آج مجھے نہ کوئی آئی فون چاہئے تھا نہ کوئی بڑا گھر گاڑی مجھے اب دنیا کی کوئی خبر نہ تھی میری دنیا سلیم بن چکا تھا ہم عورتیں کیسے منہ پھاڑ کر کہہ دیتی ہیں جب کھلا نہیں سکتے تھے تو شادی کیوں کی بات بات پہ جھگڑا اور طعنے شروع کر دیتی ہیں کبھی اپنے شوہر کا وہ چہرہ دیکھنا
جیسے میں نے سلیم کا دیکھا تھا خدا کی قسم ہم ایک سانس نہ لے سکیں اس ماحول میں یہاں مرد اپنی فیملی کے لئے خود کو قربان کر دیتا ہے جتنے شوہر کماتا ہے اس پہ خوش رہو پیسہ بھی سب کچھ نہیں ہوتا خدا کی قسم مجھے بڑی گاڑیوں اور اے سی والے محل میں وہ سکون نہیں ملا جو سکون سلیم کی بانہوں میں آتا ہے جو سکون سلیم کا سر دبانے میں آتا ہے ۔جو سکون سلیم کی پسند کے کھانے بنانے میں آتا ہے ہمسفر کی بے بسی کو سمجھو تو سہی دیکھ تو سہی آپ کبھی جھگڑا نہیں کریں گی سلیم اب میری زندگی ہے اور میں سلیم کی شہزادی شاید کوئی لڑکی سنبھل جائے یہ پڑھ کر
