Home / آرٹیکلز / ” کلیساء کی رات “

” کلیساء کی رات “

چند افراد پر مشتمل تجارتی قافلہ ملکِ شام کی حدود میں داخل ہو گیا لیکن رات کی تاریکی پھیل چکی تھی اور اہل قافلہ کی ہمت بھی جواب دے چُکی تھی قافلہ کے سردار نے ارد گرد نظر دوڑائ تو چند فرلانگ پر سوائے ایک کلیساء کے آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا سو رات گزارنے کی نیت سے قافلہ نے ادھر کا رُخ کیا !
سردار نے کلیساء کے دروازے پر دستک دی تو چند لمحوں بعد ایک شخص باہر آیا اس نے ناگواری سے پوچھا کیا چائیے سردار نے کہا ہم تجارت کی غرض سے شام جا رہے تھے مگر اب رات کی تاریکی رکاوٹ بن گی ہے اور ہم میں بھی سفر کی طاقت نہیں سوائے اس عبادت گاہ کے ہمیں کوئ آبادی نہیں ملی اس لیے ہم یہاں رات گزارنے کی اجازت چاہئے اُس شخص نے جواب دیا یہ کوئ سرائے نہیں اک تارک الدنیا راہب کی عبادت گاہ ہے کچھ دن پہلے بھی اک قافلے کو یہاں رات گزارنے کی اجازت دی تھی جو ساری رات شراب میں بد مستیاں کرتے رہے جس کی وجہ سے ہماری عبادت میں خلل ہوا. لہذا اب ہمارے راہب نے سختی سے منع کر دیا ہے! امیر قافلہ نے کہا ہم مکہ سے آئے ہیں باقی کے دو لوگ میرے غلام ہیں ہم میں کوئ شرابی نہیں ہم صرف آرام کرنا چائتے ہیں اپنے راہب سے پوچھ لو اجازت دے دے تو مہربانی ورنہ ہم کھلے آسمان تلے ہی رات گزار لیں گے! چند لمحوں بعد وہی آدمی باہر آیا اور کہا راہب نے آپ کو اندر بلایا ہے سردار اس آدمی کے ساتھ کلیساء کے اندر داخل ہوا, کمرے میں داخل ہوتے ہی سردار کی نظر ایک بوڑھے راہب پر پڑی جس کی بھنویں تک سفید ہو چکی تھیں اس سے پہلے کہ سرادر کچھ بولتا بوڑھا راہب بولا تم مکہ سے آئے ہو ؟ سردار: ہاں راہب : وہی مکہ جو پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے ؟ سرادر : جی ہاں راہب : تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے سردار : قریش کے قبیلے سے راہب : یہ سُنتے ہی چونک اُٹھا اور پوچھا تمہارا
نام اور باپ کا نام ؟؟ سرادر : میرا نام عبد اللہ اور والد کا نام عثمان راہب نے اک طاق میں پڑی کتاب اُٹھائ اور ورق گردانی کرنے لگا چند لمحوں بعد راہب نے کہا اپنا دایاں ہاتھ دیکھاؤ ؟؟ سرادر اب ان سوالوں سے اکتا چکا تھا وہ بولا تم عجیب آدمی ہو اک رات گزارنے کی بات پر تم نے میرا شجرہ نسب کھنگال ڈالا اب ہاتھ دیکھنا چاء رہے ہو ہم کھلے صحرا میں ہی رات گزار لیں گے یہ کہہ کر سردار جانے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ راہب نے پیچھے سے دامن تھام لیا اور بولا اے ابن قحافہ خدارا مجھے اپنا دایاں ہاتھ دیکھاؤ سردار بڑا حیران ہوا کہ میرے باپ کی کنیت کا اسے کیسے پتہ چلا , سرادر نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا ہاتھ بڑھا دیا, ہاتھ دیکھتے ہی راہب کی ہچکیاں جاری ہو گئیں وہ ہاتھ چومتا جاتا اور روتا جاتا. کلیساء کے اندر اک عجیب سماں بند چکا تھا سردار اور ملازم راہب کی تمام گفتگو اور اب اس حرکت سے حیران و پریشان تھے جب راہب کے آنسو تھم چکے تو وہ خود ہی بولا ” سنو اے ابن قحافہ! میں کئ برسوں سے یہاں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا ہماری اس کتاب میں اس آخری نبی اور اس کے رفقاء کی تمام نشانیاں موجود ہیں تم وہ خوش قسمت انسان ہو جسے اس ہستی کی طویل رفاقت کا شرف حاصل رہے گا تم ہی وہ ستارے ہو جو قیامت تک اُس مہتاب کے پہلو میں جلوہ گر رہو گا تمہارے قبیلہ, باپ اور تمہارے داہنے ہاتھ پر تل کا نشان ہماری مقدس کتاب میں موجود ہے سنو اے ابن قحافہ! جب تمہاری زندگی میں وہ خوش بخت دن آئے تو مجھے بھی یاد رکھنا! شام کے کلیساء میں رات بسر کرنے والے اُس سردار کو اُس وقت کیا خبر تھی کہ آج کے بعد دونوں جہان کی عظمتیں اس کے زیر قدم رہیں گئیں قیامت تک دنیا اُسے ” صدیق اکبر ” کے نام سے یاد رکھے گئ !

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *