جو واقعہ میں سنانے جارہا ہوں وہ پرانا تو ہے لیکن زیادہ پرانا نہیں۔ جولائی کے اختتامی دن تھے جب یہ واقعہ ہوا۔ آج جہاں گل بائی انڈسٹریل پارک ہے اس کے اختتام پر ہاکس بے روڈ کے شروعاتی حصے پر آٹا مل ہوا کرتی تھی۔ اس سے آگے ٹرک اڈا شروع ہوتا تھا۔ قائداعظم ٹرک اسٹینڈ۔ اسے ماری پور روڈ سے یہاں منتقل کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اسی ٹرک اسٹینڈ کے اندر ہوا تھا۔چھوٹا سا واقعہ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے جیسے لاکھوں مجبور انسانوں کےغصے کو ایک چہرہ دیدیا۔ غصے کا بھیانک چہرہ۔ ٹرک اڈے کے قرب و جوار میں رہنے والے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں پر دور رس نتائج مرتب کرنے والے اس واقعے کی تفصیل بتانے سے پہلے ٹرک اڈے کے بارے میں بتانا مناسب ہوگا۔ دراصل اس ٹرک اڈے کی ماری پور روڈ پر موجودگی ایک بڑا مسئلہ بن چکی تھی۔ کاروبار پھیل چکا تھا۔ جگہ کم پڑتی جارہی تھی۔ ساتھ ہی ہیوی ٹریفک کی وجہ سے ٹریفک جام معمول بن گیا تھا۔لوگ گھنٹوں پھنسے رہتے۔ حکومت نے اس مسئلے کا فوری حل یہ نکالا کہ ٹرک اڈا ماری پور روڈ سے گلبائی انڈسٹریل ایریا اور گریکس ولیج کے درمیان ہاکس بے روڈ پر منتقل کردیا اور یوں ٹریفک جام کا مسئلہ ماری پور روڈ سے نکل کر ہاکس بے روڈ پر پہنچ گیا۔ ٹرک اڈا جو ہزاروں محنت کشوں کے روزگار کا ذریعہ تھا، ماری پور اور ہاکس بے کے لوگوں کے لیے ایک مستقل مصیبت بن گیا۔ متبادل روڈ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا ملازمت،کاروبار، تعلیم اور علاج کے لیے شہر جانا محال ہوگیا۔ یہاں تک کہ ایمبولینس کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے مریضوں کی راستے میں ہی اموات بھی ہوئیں۔ ٹریفک پولیس کے کچھ اہلکاروں کو ٹرک اڈے سے بہت فائدہ ہوا۔ وہ ٹریفک کا نظام رواں دواں رکھنے کی ذمہ داری نبھانے کے بجائے ٹرک اڈے سے نکلنے والے ٹریلروں اور ٹرکوں کے لیے راستہ بناتے نظر آتے۔ اس واقعے کی ابتداء بھی اسی وجہ سے ہوئی۔ اٹھائیس جولائی کی سہہ پہر کا وقت تھا۔ بارش کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہاکس بے روڈ کی بدترین صورتحال تھی۔ حسب معمول ٹریفک جام تھا۔ مسافر بسوں میں بیٹھی خواتین گاڑیوں سے اترکر اپنے بچوں کو سنبھالے، سڑک پر پڑے گڑھوں اور کیچڑ سے خود کو بچاتی پیدل جانے پر مجبور تھیں۔ کاروں اور موٹرسائیکلوں سمیت پرائیوٹ گاڑیوں میں موجود افراد راستہ نہ ملنے پر انتظار کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن کچھ ٹریفک اہلکار اپنا کام کر رہے تھے۔ ٹرک اڈے سے نکلنے والے ٹریلرز اور ٹرکوں کے لیے راستہ بنا رہے تھے اور اپنی گاڑیوں میں پھنسےاکثر لوگ بڑ بڑا رہے تھے. لیکن ایک صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوہی گیا۔ وہ گاڑی سے اترے اور ٹریفک پولیس کے افسر سے الجھ پڑے۔ انہوں نے غصے سے ٹریفک پولیس اہلکار سے کہا“آپ کو ٹریفک جام میں پھنسے لوگوں کا کوئی احساس نہیں! ” ٹریفک پولیس اہلکار کو بھی غصہ آگیا۔ “اندھے ہو، دیکھ نہیں سکتے۔ ہم کام تو کر رہے ہیں ” ٹریفک پولیس اہلکار نے کہا۔ ٹریفک جام سے پریشان مسافر کا پارہ ہائی ہوگیا۔ “یہ کام کر رہے ہو تم! یہ کام ہے تمہارا! تم تو چاکری کر رہے ہو” اس دوران مجمع لگ گیا۔ لوگ گاڑیوں اتر کر جمع ہوگئے۔ بات تو تڑاخ سے بڑھ کر گریبان تک پہنچ گئی۔ ٹریفک پولیس اہلکار اور مسافر کے ہاتھ ایک دوسرے کی گریبان پر تھے۔ بات بڑھ گئی۔ ٹریفک جام سے پریشان دیگر مسافر بھی لڑائی میں کود پڑے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جیسے آگ لگ گئی۔ طویل عرصے سے دلوں میں سلگتے ہوئے غصے کو جیسے ایک چہرہ مل گیا۔ لاوہ تھا جو پھٹ پڑا۔ پولیس پہنچنے میں ٹریفک جام کی وجہ سے تاخیر ہوئی لیکن بہرحال پولیس پہنچی اور بڑی مشکل سے حالات پر قابو پایا۔ اس واقعے کو طویل عرصہ گذرگیا ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ ماری پور اب شہر کا سب سے ترقی یافتہ علاقہ ہے۔ اسکول، کالجز، یونیورسٹیز، ہاسپٹلز، تفریحی مقامات۔ سمندر کے اوپر بنے پل کےذریعے ہاکس بے کا علاقہ کلفٹن سے منسلک ہوچکا ہے۔ ہاکس بے روڈ اب موٹروے کا حصہ بن چکی ہے۔ شہر کے کسی بھی علاقے سے یہاں پہنچنا اب منٹوں کی بات ہے۔ شاید ماضی کی صورتحال کسی کے تصور میں بھی نہ ہو۔ لیکن اس کی بہت سی کہانیوں میں ایک پرانی کہانی یہ بھی ہے۔ جو زیادہ پرانی نہیں۔ (نوٹ:یہ محض ایک کہانی ہے۔ ساری باتیں فرضی ہیں۔ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں،جو لوگوں نے پھیلائی ہیں).
