میں چھوٹا سا تھا جب ماں کہا کرتی تھی کہ میرا یافع بہت بڑا آدمی بنے گا۔ میری بھولی ماں نہیں جانتی تھی کہ بڑے لوگوں کے اس شہر میں انسان بڑا آدمی نہ بن سکے تو آدمی کہلانا بھی مشکل ہوجاتا ہے کجا یہ کہ مجھ سا چھوٹا انسان!
میں اماں، ابا کی اکلوتی اولاد تھا۔ بڑی دعاؤں، منتوں، مرادوں سے دس سال بعد ماں باپ کی جھولی میں آیا۔ ابا معمولی سے اسکول ماسٹر تھے پھر بھی میری پیدائش پر اپنی بساط سے بڑھ کر خوشی منائی۔ ابا مجھے ہمیشہ بلند نصیب اور بلند اقبال دیکھنا چاہتے تھے سو میرا نام خوب سوچ بچار کے بعد ”یافع“ رکھ دیا یعنی ”لمبا تڑنگا نوجوان“ ، اس لمحے شاید تقدیر بھی دور کھڑی ہنس رہی تھی کہ تمام عمر میرا نام مجھے کانٹے کی طرح چبھتا رہا۔ بھلا ناموں سے بھی بخت بدلتے ہیں!
مجھے یاد ہے جب ابا مجھے تیسری جماعت میں داخلہ دلوانے اسکول لے گئے تھے تو ہیڈ ماسٹر صاحب بہت دیر تک مجھے سر تا پا گھورتے رہے، شاید ابا کے ہیڈ ماسٹر ہونے کا لحاظ تھا کہ بڑی دیر بعد فقرہ موزوں کیا، ”جلال صاحب! بچے کی عمر کے لحاظ سے تیسری جماعت میں بٹھایا تو دوسرے بچے بلاوجہ تنگ کریں گے، اس کو قد کاٹھ کے حساب سے پہلی میں داخلہ دے دیتے ہیں۔“
ابا کے دل پر گھونسا پڑا۔ ان کے یافع کو دنیا کی پہلی نظر، پہلے فقرے کا سامنا تھا اور وہ بے بس تھے۔ ابا، جو اب تک دنیا کی نظروں سے مجھے چھپا چھپا کر اور خود کو بہلا کر جیتے آئے تھے، ہیڈماسٹر صاحب کے لفظوں پر خاموش سے ہو گئے۔ کہا تو بس اتنا، ”جناب! آپ بچے کا امتحان لے چکے ہیں۔ اس کی عمر اور قابلیت کے حساب سے تیسری جماعت ہی بنتی ہے، بلاوجہ دو سال ضائع کروانے کا فائدہ! “ ۔ یوں ہیڈماسٹر صاحب نے چار و نا چار مجھے تیسری جماعت میں داخلہ دے ہی دیا۔
دراصل میری پیدائش کے کچھ ماہ بعد ہی ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ میں پیدائشی طور پر پستہ قامتی یا dwarfism کا شکار ہوں اور یہ کہ میرا قد ساری عمر ایک مخصوص حد یعنی اوسطاً تین سے چار فٹ سے زیادہ نہیں بڑھ سکتا۔ دوسرے لفظوں میں اماں کا لاڈلا اور ابا کا یافع انسانوں کے اس جنگل کا محض ایک بونا تھا۔
میرا داخلہ کروانے کے بعد گھر آ کر جانے ابا، اماں میں کیا بات ہوئی کہ ماں کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ اس دن ابا مجھے گلے سے لگائے بہت دیر تک سمجھاتے رہے، ”بیٹے یافع! بس اپنی پڑھائی پر توجہ دینا، لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرنا“ ۔ ابا نے اس دن پہلی مرتبہ مجھے یہ شعر سنایا۔
بات کردار کی ہوتی ہے وگرنہ عارف
قد میں تو سایہ بھی انساں سے بڑا ہوتا ہے
اس کے بعد ابا بار بار یہ شعر دہرایا کرتے حتیٰ کہ یہ میرے لاشعور میں رچ بس گیا۔ مگر کیا کرتا کہ دنیا کے بازار میں کردار بے مول تھا اور قد کاٹھ، دولت، مرتبہ، حیثیت منہ مانگے دام بکتے تھے۔ میں کئی مرتبہ اپنے معمولی وجود کو لوگوں کے فقروں، طنز اور تضحیک کے تیروں سے چھلنی کر لیتا، ٹوٹ جاتا، بکھر جاتا تو ماں کی آغوش میں چھپ جاتا، ابا کی تسلی آمیز باتوں میں مرہم ڈھونڈتا۔ مجھے بہت بچپن میں ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ دنیا اونچے لوگوں کی ہے، بڑے لوگوں کی!
“ مینیجر درشتی سے کہہ رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ارشد اپنے گھر کا واحد کفیل ہے اور آج بخار کے باوجود ڈیوٹی پر آیا ہے۔ مینیجر اصول کا پکا اور سخت آدمی تھا۔ مجھے علم تھا کہ ارشد کی قلیل تنخواہ میں سے تین ہزار کی کٹوتی اسے کتنی بھاری پڑے گی۔ میرا دل ارشد کے لئے اداس ہونے لگا اور یہ احساس اتنا شدید ہوا کہ میں گیٹ سے ہٹ کر غیر محسوس طریقے سے ارشد کے قریب جا پہنچا۔ ”ارشد“ میں نے دھیرے سے اسے پکارا، اور تین ہزار خاموشی سے اس کی جیب میں رکھ دیے۔
ارشد نے چونک کر مجھے دیکھا اور نفی میں سر ہلانے لگا۔ میں تیزی سے پلٹ کر گیٹ کی طرف بڑھ گیا، مگر ستم ظریفی کہ میری معمولی سی حرکت بھی مینیجر کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ وہ تیر کی طرح میرے سر پہ پہنچ گیا۔ ”یافع! یہ کیا حرکت کی ہے، مطلب اب تم ان معاملات میں دخل اندازی کرو گے۔ اب خود کو بھی فارغ سمجھو اور کرتے پھرو یہ ہمدردیاں۔ “
مینیجر شاید آج زیادہ خار کھائے ہوئے تھا مگر مجھے اس طرح کے اچانک اقدام کی توقع نہیں تھی۔ میں ششدر رہ گیا۔ یہ نوکری کتنی دقتوں کے بعد ملی تھی، میرا ہی دل جانتا تھا۔ اس کو کھونے کا تصور ہی میرے لئے سوہان روح تھا۔ مگر کیونکہ میرا جرم کسی کی مدد تھا اور اس کے لئے معافی مانگنا میرے اصولوں کے خلاف، اس لئے خاموش رہا۔ جاتے جاتے میں نے ارشد کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں میرے لئے عزت تھی، ان آنکھوں میں میرے قد کی نہیں صرف کردار کی اہمیت تھی۔ مجھے لگا کہ میرا قد چند انچ بلند ہو گیا ہے۔ میں نے آخری نگاہ روشنیوں بھرے ہال پر ڈالی اور باہر نکل آیا۔
چند دن بعد پھر سے میں تھا اور میری نوکری کی تلاش، ہوٹل کی نوکری دوبارہ ملنا بہت مشکل تھا۔ انہی دنوں میری نگاہ سے شہر میں لگے سرکس کا اشتہار گزرا۔ میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا مگر معاشرے کے ہاتھوں اب سرکس کے مسخرے کی نوکری کے لئے بھی تیار تھا۔ کچھ کوشش کے بعد بالآخر مجھے سرکس میں جوکر کا کردار نبھانا آ گیا۔ محنتی تو میں تھا ہی، اور کچھ تعلیم اور شعور بھی تھا تو نے نئے طریقوں سے جلد ہی لوگوں کو ہنسنے اور مسکرانے پر مجبور کر دیتا۔
اپنے نئے رنگوں سے سجے بہروپ پر مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوتی تھی ہاں کبھی کبھی لوگوں کے چہروں پر چڑھے ماسک مجھے ضرور حیران کر دیتے۔ آہستہ آہستہ میں اپنے فن میں طاق ہوتا جا رہا تھا اور تقریباً تمام کرتب دکھا لیتا۔ رنگ برنگ لباس اور چہرے پر سفید، سرخ، نیلا، گلابی رنگ لگائے میں اب سرکس کا بونا جوکر تھا۔ میرے ساتھ کام کرنے والا لمبا ( ٹال مین) جانو، تنی رسی پر چلنے والی لڑکی نینا اور میجک مین ریمبو اب میرے دوست تھے۔
ہم روزانہ تین شو کیا کرتے تھے۔ جانو پانچ فٹ لمبے بانسوں پر کھڑا ہو کر گیارہ فٹ لمبا ٹال مین بن جاتا اور میں تین فٹ کا بونا اس کے اردگرد منڈلاتا، ہماری جوڑی کی حرکتوں اور شرارتوں سے لوگ خوب محظوظ ہوا کرتے۔ چھ میٹر بلند تنی رسی پر چلتی نینا تنگ اور شوخ و بھڑکیلے کپڑے پہن کر ہاتھ میں ڈنڈا متوازن کرتے ہوئے چلتی تو میں اور جانو خوب تالیاں بجاتے۔
وہ ایک ایسا ہی دن تھا۔ اتوار کی چھٹی کی وجہ سے خوب رش تھا۔ ہمارا آخری شو چل رہا تھا۔ پہلے جانو اور میری جوڑی نے اوٹ پٹانگ حرکتوں اور باتوں سے شائقین کو محظوظ کیا۔ اس کے بعد نینا کی باری تھی۔ میں اور جانو حسب معمول اسٹیج کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر تالیاں بجانے اور داد بھرے فقرے اس کی جانب اچھالنے میں مصروف تھے۔ نینا ہمیشہ کی طرح مہارت سے مختلف جمناسٹک مہارتیں دکھا رہی تھی۔ شائقین کا شور شرابا عروج پر تھا۔
اب نینا سیڑھیاں چڑھ کر مچان پر پہنچ گئی تھی۔ اور سب سے مقبول آئٹم یعنی تنی رسی پر چلنے کی تیاریوں میں تھی۔ میں نے خوشی سے قلابازیاں کھائیں اور ٹال مین تالیاں بجانے لگا۔ نینا نے ہاتھ میں ڈنڈا متوازن رکھتے ہوئے رسی پر قدم رکھا اور چند قدم بڑھائے۔ یکایک شائقین میں سے کسی ماہر نشانہ باز نے تاک کر خالی بوتل نینا کی طرف اچھالی۔ بوتل نینا کے جسم سے ٹکرائی اور اسے ڈگمگا گئی۔ نینا توازن کھو بیٹھی تھی قریب تھا کہ وہ نیچے گر جاتی کہ اس کا تنگ لباس قریب بنی مچان کی کیل میں اٹک گیا۔
چرررر۔ کی آواز کے ساتھ نینا کا شوخ لباس ادھڑ چکا تھا۔ اور وہ نیم عریاں حالت میں مچان سے لٹکی پنڈولم کی مانند جھول رہی تھی۔ یہ سب اتنا چشم زدن میں ہوا کہ میں، جانو اور ریمبو ششدر رہ گئے۔ سامنے بیٹھے شائقین کو ایک نیا اور دلچسپ تماشا ہاتھ آ گیا تھا۔ لہذا عوام کی ہوٹنگ، فقروں اور سیٹیوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ نینا کپڑے پھٹ جانے پر واضح طور پر ہراساں، اور شرمندہ نظر آ رہی تھی۔ وہ جمناسٹک کی ماہر تھی اور خود کو باآسانی سنبھال کر سیدھا کرنا جانتی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس کی ہر ہر حرکت سے اس کا لباس مزید ادھڑ جاتا، یہ صورتحال اس کو ہراساں کرنے کو کافی تھی۔
میں سرد موسم میں بھی اس کے پسینے چھوٹتے دیکھ رہا تھا۔ شائقین کا مجمع اس نئے تماشے پر بے قابو ہو رہا تھا۔ ”انتظامیہ کیوں نہیں مدد کرتی“ میں نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ مگر اب نینا کچھ جدوجہد کے بعد مچان پر پہنچ گئی تھی اور سمٹی سمٹائی، سہمی ہوئی سی ستون کی آڑ میں کھڑی تھی۔ وہ یقیناً تماش بینوں کے سامنے نیچے اترنے سے ہچکچا رہی تھی۔ میرے جمے قدموں نے حرکت کی اور میں چشم زدن میں میجک مین ریمبو کا لمبا کوٹ اٹھا کر مچان کے زینے کی جانب بھاگنے لگا۔
کچھ ہی لمحوں میں نینا سر تا پا کوٹ میں ڈھکی تیزی سے اسٹیج کے پیچھے جا رہی تھی۔ شائقین اس نظارے سے ہنوز محظوظ نظر آرہے تھے۔ وہ تالیاں پیٹ رہے تھے، فقرے کس رہے تھے اور سیٹیاں بجا رہے تھے۔ نینا نے جاتے سمے مجھ پر ایک نگاہ ڈالی، اس نگاہ میں میرے لئے عزت، عقیدت اور تشکر کے آنسو چمک رہے تھے۔
اسی لمحے میرا تین فٹا قد بڑھنے لگا۔ میں سامنے موجود سب انسانوں سے بلند ہو گیا۔ سینکڑوں چھ فٹے انسانوں سے لمبا، گیارہ فٹے جانو سے بھی لمبا۔ میرے سامنے بونوں کا مجمع تھا اور بونوں کا مجمع ابھی تک تالیاں پیٹ رہا تھا، قہقہے لگا رہا تھا۔