تقریباً آج سے تین سال پہلےکی بات ہے۔ہم دوستوں نے اسلام آباد جانے کا پروگرام بنایا۔ اسلام آباد میں ہم بری امام، قائد اعظم یونیورسٹی، Monal Lake view Park , پھر اس کے بعد مری، نتھیاگلی، اس کے بعد ایبٹ آباد گئے۔ جب ہم اسلام آباد پہنچے۔تو راستے میں بری امام دربار آیا۔ہم نے گاڑی ایک طرف کھڑی کر دی۔ دربار میں اندر جانے کیلئے آپ کو ایک لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔ ہم اس قطار میں کھڑے ہوئے اور آہستہ آہستہ دربار کے اندر داخل ہوگئے۔ وہاں ہم دوستوں نے ایک ٹوکری میں اپنے جوتے رکھےاور ساتھ کھڑے شخص کو پچاس روپے دئیے۔ وہاں بہت رش تھی۔ ہم دوستوں نے دعا کی, اس کے بعد ہم نے دربار کا ایک چکر لگایا کچھ تصاویر بنائیں اور کچھ دیر بعد باہر آگئے۔ دربار کے گیٹ کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا بازار تھا وہاں عورتوں اور بچوں کے کیلئے چیزیں موجود تھیں۔ وہاں ایک دوکان تھی اس کے پاس کتابیں تھیں محتلف قسم کی کتابیں موجود تھیں بری امام کی تاریخ کی کچھ کتابیں بھی تھیں۔ میرے دوست مجھ سے آگے نکل گئے اور میں اس دوکان والے
کے ساتھ کھڑا رہا اور کتابیں دیکھنے لگا۔ میں کتابیں دیکھ رہا تھا کہ ایک لڑکی آکر میرے ساتھ کھڑی ہوگئی میں ذرا سائیڈ پر ہوگیا ۔ اتنے میں میری اور اس لڑکی کے نظر مل گئی۔ اس لڑکی کی عمر تقریباً 26 یا 27 سال ہوگی ۔ لمبی سی, بڑی بڑی آنکھیں, کھلے بال, کندھے پر دوپٹہ ہاتھ میں پرس، اور پپلےرنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ میں نے نظر نیچی کر دی مگر جب میں نے دوسری بار اس کو دیکھا تو اس نے آنکھوں سے اشارہ کیا۔ میں ڈر سا گیا پھر اس کے بعد اس نے ہاتھ سے ہماری گاڑی کی طرف اشارہ کیا ۔ میرا دوست کچھ فاصلے پر کھڑا تھا میں جلدی سے اس کے پاس گیا اور اس کو بتایا کہ لڑکی اشارہ کر رہی ہے. میرے کچھ کئے اور کہے بغیر اشارے کر رہی ہے۔ میرے دوست نے خاموش اور جواب نا دینے کا مشورہ دیا۔ میں نے کہا یار کیا ہوا, اس نے کہا اتنے معصوم نا بنو! میں نے کہا یار ٹھیک ٹھیک بتاؤ یہ لڑکی کیا بولنا چاہ رہی ہے. اس نے کہا یہ کام والی ہے اور ہمیں بولا رہی ہے ۔پتہ نہیں اس وقت مجھے کیا ہوا میرے سر میں اچانک درد شروع ہوگیا ۔ بہت وقت تک میں اس لڑکی کو دیکھتا رہا۔ کبھی وہ مجھے تو کبھی وہ میرے دوستوں کو اشارہ کرتی تھی ۔ ہم لوگ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے قائد اعظم یونیورسٹی کی طرف چل پڑے——– آخر وہ خوبصورت لڑکی کون تھی ؟ کیا وہ مجبور تھی ؟ کیا معاشرے کے لوگوں نے اسے مجبور کیا
تھا؟ کیا اس کے ماں باپ بہن بھائی نہیں تھے ؟ کیا یہ اس کا شوق تھا ؟ آخر وہ اپنی معصوم بدن پر کیوں ظلم کر رہی تھی ؟ کیا وہ دو وقت روٹی حاصل کرنے کیلئے یہ کام کرتی تھی؟ کیا اس کے کوئی آرمان نہی ؟ کیا وہ دوسرے لڑکیوں کی طرح حیا کی چادر پہنا نہیں چاہتی تھی؟ کیا اس کے ساتھ کوئی ظلم ہوا تھا؟ یا اس کے گھر میں چھوٹے بہن بھائی اور ماں روٹی کا انتظار کر رہے تھے ؟ کیا اس کے کوئی رشتہ دار نہیں تھے ؟ کیا اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا تھا ؟ آخر وہ لڑکی کون تھی ؟ کیوں یہ سب کر رہی تھی ؟ یہ سوالات میں آج بھی اپنے آپ سے کرتا ہوں ؟ مگر آج تک جواب نہیں ملا ! شاید وہ لڑکی اس حوس زدا معاشرے کو جان چکی تھی۔ وہ جان چکی تھی کہ یہ معاشرہ کے لوگ صرف اور صرف اس کام کو پسند کرتے ہیں ۔ ورنہ ہر دن وہ لڑکی اپنی عزت کو اس طرح بازاروں میں نیلام نہ کرتی۔ میں تو اللہ تعالیٰ سے آج بھی یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہر اس طرح کی لڑکی کی خود حفاظت کرنا ان کے ساتھ ہی کوئی مدد کرنا ورنہ اس معاشرے کے لوگ اس طرح کی لڑکیوں کے بھوکے ہوتے ہیں ۔ یہ صرف بری امام کے ساتھ اس طرح کی لڑکیاں نہیں ہوتھیں بلکہ اسلام آباد کی ہر گلی میں ،پشاور کی ہر گلی میں ،لاہور کی ہر گلی میں ، کراچی یہاں تک کہ چارسدہ میں بھی اس طرح کی لڑکیاں موجود ہیں ۔ اور میں کیا بولوں مگر اتنا ضرور بولوں گا کہ ہم لوگ اس کام کو پسند کرتے ہیں کوئی لڑکی اگر ہم سے مدد مانگتی ہے تو ہم سب سے پہلے اس کی مجبوریوں
کا فاہدہ اٹھاتے ہیں ۔ ہم لوگ اللہ کی رضا کیلئے کسی کی مدد کرتے ہی نہی ہیں ۔ ہر وقت ایک دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ کبھی اپنے سوا کسی اور کا محتاج نہ بنانا۔ ہم دوست ہر سال کہیں نہ کہیں ضرور جاتے ہیں مگر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے آج تک کسی کی بہن بیٹی کی عزت خراب نہیں کی.. آج تک کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا .اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں ۔