ایک لڑکے کی کہانی اس کی زبانی سنتے ہیں ۔ میرا نام علی ہے ۔جب میں پیدا ہوئی تو سب نے یہی کہا کہ شازیہ نے تو ایک ابنارمل بچے کو پیدا کیا ہے ۔اس میں بھلا امی کا کیا قصور تھا اولاد تو اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے جسے چاہے لڑکا دے تو جسے چاہے لڑکی یا مجھ جیسی اولاد دے اور جسے چاہے اولاد کی نعمت سے محروم رکھے ۔ ابو نے چپ کر کے مجھے اٹھا کے ایک خواجہ سرا کو دے دیا اور امی کو بتایا کہ ان کی بیٹا مر گیا ہے۔ مجھے ان خواجہ سرا نے پالا جن کا نام صنم تھا۔ انھوں نے مجھے ماں باپ بن کے پالا تھا ۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے ۔ جب میں چھوٹا تھا تو انھوں نے میری پرورش عورت کے روپ میں کی شاید اتنا تو پیار تو مجھ سے میری ماں بھی نہ کرتی ۔جب میں بولنے لگا تو انھوں نے مجھے اللّٰہ کا نام یاد کروایا ۔ جب میں اللّٰہ کا نام لیتا رہتا تھا تو وہ بہت خوش ہوتے تھے ۔ میری زبان پہ آنے سے پہلے وہ میری خواہش پوری کر دیتے تھے ۔ جب میں ۵ سال کا ہوا تو انھوں نے مجھے ایک انگلش گرائمر سکول میں داخل کروا دیا ۔سکول کے بچے مجھ پہ ہنستے تھے ۔جب میں سکول سے آیا تو ان کے گلے لگ کے
رونے لگا کہ سب بچے میرا مذاق بناتے ہیں ۔میں نے اب سکول نہیں جانا وہ مجھے پیار اور شفقت سے اپنے گود میں بیٹھا کر کہنے لگے بیٹا ایک بات یاد رکھنا ہم سب کو اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ۔وہ اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے ۔بہادر وہی ہوتے ہیں جو حالات کے ساتھ چلنا سیکھ جاتے ہیں ۔ پھر مجھے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا ۔انھوں نے خود کو صنم سے علی بنایا ۔ صرف میرے لے میرے مستقبل کے لے ۔انھوں نے خود ایم اے انگلش کیا تھا ۔پر کوئی نوکری نہیں دیتا ۔ یہ جو پیٹ ہے نہ یہ ہر انسان سے سب کچھ کروا دیتا ہے ۔ذندہ رہنے کیلئے کھانا تو پڑتا ہے اور کھانے کیلئے کام تو کرنا پڑتا ہے ۔ اور ویسے بھی چھوٹا ہو یہ بڑا کام کام ہوتا ہے ۔انھوں نے خود ایک چھوٹی سی میٹھائی کی دکان کھولی اور پھر یہ دکان ایک سے ۱۰ میں بدل گئی۔انھوں نے مجھے بھی پی ایچ ڈی اسلامیات کروائی۔ انھوں نے جو میرے لے قربانیاں دی جو انھوں نے میرے لے کیا وہ کوئی اپنے ماں باپ بھی نہیں کرتے ہیں۔ انھوں نے صرف میرے لیے دوہری زندگی اپنائی ۔
لوگ ہمارے ساتھ اتنا برا رویہ رکھتے ہیں شاید ہمارے ماں باپ اس لیے بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ارے لوگوں کا کام ہی ہوتا ہے باتیں کر نا اللّٰہ تعالیٰ نے ہی ہم سب کو پیدا کیا ہے ۔ہمارا اللّٰہ ایک ہے ۔ہمارا باپ ایک ہے ۔ہمارا نبی ایک ہے ہمارا اسلام ایک ہے ۔ تو پھر لوگوں کا خوف کیوں ؟ہمیں بھی اپنی بہتر زندگی گزارنے کا حق ہے۔ ہم بھی اس معاشرے کے لوگ ہیں ۔ہمیں بھی حق ہے کہ ہم بھی عزت سے رہیں ۔ ہم بھی
باقی لوگوں کی طرح کام کریں ۔بہت سے ابنارمل لوگوں کو کوئی نوکری نہیں دیتا ۔ ہمارے تو اپنے ماں باپ بھی نہیں ہوتے نہ ہی اپنا گھر ایک بہت تلخ حقیقت ہے ہمارے ماں باپ تو ہمیں لوگوں کے ڈر سے زندہ مار دیتے ہیں ۔ یہ بھی مڑ کے نہیں دیکھتے کہ ہماری اولاد کس حال میں ہے وہ تو لوگوں کی نظروں میں ہمیں مارتے ہوئے اپنی بھی نظروں میں مار دیتے ہیں ۔لوگوں کو صرف ڈراموں اور کہانیوں میں ہی ندامت ہوتی ہے اصل میں تو بلکل نہیں
نوٹ: تہہ دل سے معافی مانگتی ہوں ۔میرا الفاظ آپ کی دل آزاری کیلئے نہیں ہیں اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کیلئے مجھے معاف کر دینا ۔
اور اگر اچھی لگی تو ضرور کومینٹ کریں