Home / آرٹیکلز / اتنا سا گ و ش ت کا ٹکڑا

اتنا سا گ و ش ت کا ٹکڑا

سحر اور مبین حسب معمول لڑ رہے تھے۔ ماہین اسکول سے آئی اور دونوں کو لڑتا دیکھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد جب وہ کپڑے بدل کر باہر آئی تو کھانا کھانے کے بجائے لان میں جا بیٹھی۔وہ ہمیشہ یہی کرتی تھی۔ لان میں گھنٹوں پودوں کو دیکھتے ہوئے گزار دیتی تھی۔ اپنے والدین کی یہ لڑائیاں وہ بچپن سے دیکھتی آ رہی تھی اور اب وہ اس سب کی عادی ہو چکی تھی۔ والدین کی لڑنے کی آوازیں اب تک اس کے کانوں میں پڑ رہی تھی پر اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ شاید اب نہیں پڑتا تھا۔ اچانک سے آوازیں آنا بند ہو گئی تھی۔ ایک آخری آواز زور سے دروازہ بند ہونے کی آئی تھی۔ سحر کمرے سے باہر نکلی تو سیدھا لان کی طرف آئی۔ وہ جانتی تھی کہ ماہین وہیں بیٹھی ان دونوں کو لڑتا دیکھ کر رو رہی ہو گی۔ اپنے غصے پر بہت حد تک قابو پاتے ہوئے وہ ماہین کے پاس جا کر بیٹھی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ آج ماہین رو نہیں رہی تھی۔ آج وہ خوش تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر لگتا تھا جیسے اسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔ “ارے واہ! آج تو میرا بیٹا بہت خوش ہے۔ میں بھی تو جانوں کیا بات ہے؟” سحر نے ماہین کو گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔ “جی ماما! میری پزل سولو ہو گئی”۔ ماں سے الگ ہوتے ہوئے اس نے جواب دیا۔ “کون سی پزل؟ جہاں تک مجھے یاد ہے آپ کے پاس تو کوئی پزل گیم نہیں ہے” اس کے اس جواب پر وہ کافی حیران ہوئی تھی۔ “وہ میری اور ان کی پزل ماما” یہ کہتے ہوئے اس نے سامنے موجود پودوں کی طرف اشارہ کیا۔ “آپ کی اور ان پلانٹس کی پزل؟؟” اس بار لہجے میں حیرت کے ساتھ ساتھ بےیقینی بھی تھی۔ “جی!” ماہین صرف اتنا ہی بول پائی۔ “کیا پزل ہے؟ بتاو مجھے”۔ “ماما لاسٹ ویک ہم نے سائینس کی کلاس میں سیون لائف پروسیسز پڑھے تھے۔ movement, respiration, sensitivity, growth,reproduction, excretion اور nutrition.” ماہین نے جوش سے بتانا شروع کیا۔ “اچھا پھر؟” سحر کو تجسس ہوا۔ “تو میں سوچتی تھی کہ move پلانٹس بھی کرتے ہیں اور ہم humans بھی۔ respire پلانٹس بھی کرتے ہیں اور ہم بھی۔ respond بھی دونوں کرتے ہیں۔ growth ان کی بھی ہوتی ہے اور ہماری بھی۔ reproduce یہ بھی کرتے ہیں اور humans بھی۔ excretion بھی دونوں میں ہوتی ہے۔ nutrition bhi۔ سارے کام ہمارے اور ان کے سیم سیم ہیں پھر ہماری لائف میں اتنے پرابلمز کیوں ہوتے ہیں؟؟ اور ان کی لائف میں کیوں نہیں؟؟” لائف کی پرابلمز سے ماہین کا اشارہ کس طرف تھا وہ بخوبی سمجھ گئی تھی۔ اس نے ماہین کو اپنے سینے سے لگایا اور صرف اتنا ہی کہہ پائی “ماہین میں۔۔۔” کہ ماہین نے اس کی بات کاٹ دی۔ “مجھے پتا چل گیا تھا کہ کہیں نہ کہیں کوئی ڈفرنس ضرور ہے۔ میں سوچتی تھی ماما کہ اللہ جی نے پلانٹس کو ایسا کیا دیا ہے کہ وہ روز روز کی لڑائی سے دور رہتے ہیں یا ایسی کون سی چیز ہے ہمارے پاس ہے جو ہمیں لڑواتی ہے” وہ معصومیت سے بولی۔ سحر اس کی باتوں پر بالکل خاموش شل بیٹھی تھی۔ وہ اس کو یہاں سمجھا سکتی تھی بہت کچھ کہہ سکتی تھی پر وہ اپنی آٹھ سالہ بیٹی کو سننا چاہتی تھی۔ اگر اس عمر میں بھی وہ یہ سب سوچ رہی تھی تو یقیناً اس پزل کا حل بھی اس نے اس سے بہتر نکالا ہو گا۔ “اچھا تو بتاو کیا چیز ہے وہ؟” “زبان ماما! اللہ جی نے پلانٹس کو زبان نہیں دی۔ اللہ جی نے humans کو زبان دی ہے۔ اور ہماری لائف کے روز روز کے جھگڑے بھی اسی زبان کی وجہ سے ہوتے ہیں۔” اس کے اس جواب پر وہ بے یقینی سے اپنی اس آٹھ سالہ بیٹی کو دیکھ رہی تھی۔ ٹھیک ہی توکہہ رہی تھی وہ۔ زبان ہی تو ہے جس سے ادا کئے گئے زہریلے الفاظ روز اسے اور مبین کو لڑنے پر مجبور کرتے تھے پر اس سے زیادہ حیرت اسے اس بات پر تھی کہ جو بات وہ اور مبین آج تک نہیں سمجھ پائے وہ ان کی بیٹی آٹھ سال کی عمر میں سمجھ گئی تھی۔ ماں کو خاموش پا کر اس نے پھر سے بولنا شروع کیا “آپ کو پتا ہے ماما جب ہم کلاس میں شور کرتے ہیں تو میم کہتی ہیں کہ چھوٹا سا گوشت کا ٹکڑا ہے یہ زبان جس پر آپ قابو نہیں پا سکتے تو اپنے نفس پر قابو کیسے پائیں گے؟؟۔ تب سے مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ مجھے خود پر قابو پانے کے لئے اس اتنے سے گوشت کے ٹکڑے کو سنبھالنا ہو گا۔ بولنا ہے تو سچ بولنا ہے، اچھا بولنا ہے اور اگر میں یہ نہیں کر سکتی تو مجھے خاموش رہنا ہے” آنسو اس کے گال پر بہنے لگے۔ ماں کو روتا دیکھ کر ماہین نے پوچھا “ماما ماما رو کیوں رہی ہیں؟؟ میں نے کچھ غلط کہہ دیا؟ آپ میری باتوں سے ہرٹ ہو گئی؟؟؟” اس کے اس معصومیت بھرے لہجے پر اسے بے حد پیار آیا۔اس نے ماہین کے آنسو پونچھے اور اس کا ماتھا چوما۔ “باکل نہیں۔ ٹھیک کہا آپ نے جو کہا۔ بس میں سوچ رہی ہوں کہ میری بیٹی اتنی بڑی کب ہو گئی؟” اس بات پر دونوں ماں بیٹی ہنس دیں۔ “آپ نے کھانا کھایا؟” “نہیں ماما” “آپ اندر جاو۔ میں آتی ہوں اور پھر دونوں ساتھ کھانا کھائیں گے” “اوکے ماما! تابعداری سے کہا اور اندر چلی گئی۔ سحر اس کو اندر جاتا دیکھ رہی تھی پر دل و دماغ میں صرف ایک ہی بات گردش کر رہی تھی وہ اتنے سالوں سے ایک چھوٹے سے گوشت کے ٹکڑے کو نہیں سنبھال پائی؟؟؟

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *