محلے کا ایک غریب و کمزور گھرانہ ہوگا تو وہ اپنے بیٹوں کو جھولی پھیلا کر سمجھائے گا دیکھو ہماری نہ طاقت ہے نہ ہمت تو کسی طاقتور سے نہ الجھنا. بیٹیوں کو باہر بیجھنے سے پہلے سمجھائیں گے ہجوم والے راستے پر چلنا. دوسری لڑکیوں کے ساتھ چلنا تاکہ تمہیں کوئی چھیڑے نہ.
محلے کے امیر اور طاقتور گھرانے کے بچے بچیاں باہر آتے جاتے ہیں. ان کو ان باتوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی کیونکہ وہ جانتے ہیں ان کا پوچھنے والوں کے پاس دولت بھی ہے، طاقت بھی اور اختیار بھی. کس کی مجال جو ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں.
یہ معاشرے کا سچ ہے. یہ دنیا کا ایک کڑوا سچ ہے. سر اٹھا کر جینا ہے یا سر جھکا کر.؟ ہر وقت پھیلنے کیلئے تیار ہاتھ کا سر جھکا ہوا ہوتا ہے. اس کی عزت و ناموس ہر وقت خطرے میں ہوتی ہے. تتلی کے خوشنما رنگ میں ڈنک نہیں تو بچاری کو بچنے کیلئے دوڑنا پڑتا ہے. کوئی بھڑ کے ساتھ مستی کر کے دکھائے.؟ وہ دوڑنے پر مجبور کردے گی.
اپ کی عزت و ناموس ہو یا عقیدت اور عشق آپ کی چادر و چار دیواری ہو یا ملکی سالمیت اس کی حفاظت منت سماجت اور دنیا کے انصاف کو پکارنے سے نہیں ہوگی بلکہ اپنے پھیلے ہوئے ہاتھ کو آوزار یا ہتھیار بنا کر ہوتی ہے. جب آپ لینے کی بجائے دینے والے بن جاتے ہیں تو دنیا نہ صرف آپ کی عزت کرتی ہے بلکہ اپنے منچلوں کو آپ کے ردعمل کے ڈر سے خود ہی سمجھانا شروع کر دیتی ہے۔“