صاحب میری ماں کو بچالیجیے۔ ڈاکٹر چارلاکھ رپے کا خرچ بتارہے ہیں۔ صاحب ! ماں کو بچالیں۔ میں پیسے اپنی تنخواہ میں سے تھوڑے تھوڑے کرکے واپس کردوں گا۔ میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔
یہ الفاظ سن کر احمد سلیم کو حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ وہ ایک دولت مند آدمی تھے اور لوگوں کی مدد کرنا انھیں اچھا لگتا تھا۔ چار لاکھ رپے ان کے لیے معمولی رقم تھی۔ اس شخص کودیکھ کر وہ ماضی کی یادوں میں کھوتے چلے گئے۔ استاد، استاد! میری ماں کی طبیعت بہت خراب ہے۔ کچھ پیسے دے دو۔ میں تمھارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ یہ پیسے میری تنخواہ سے کاٹ لینا استاد․․․․․․․․“ بارہ سالہ سلیم اپنے استاد کے سامنے گڑگڑا رہاتھا۔ وہ ایک دکان میں مکینک کاکام کرتا تھا۔ حالات نے اس وقت سے پہلے ہی بڑا کردیا تھا۔
اسکول، پڑھائی، کھیل کود، یہ الفاظ اس کی زندگی میں نہیں تھے۔ اس کی زندگی کامقصد تو بس ایک ہی تھا، بیمارماں کی زندگی کی ڈور کوکٹنے نہ دینا اور اپنے سے چھوٹے پانچ بہن بھائیوں کا پیٹ پالنا۔ جس دکان پر سلیم کام کرتا تھا ،ا س کامالک ایک رحم دل آدمی تھا۔ وہ سلیم کی اکثر مددکردیا کرتا تھا۔ تقریباََ ہر مہینے ہی اس کایہ معمول تھا۔ کبھی تو مانگے ہوئے پیسے اس کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتے تھے۔ استاد بھی جانتے تھے کہ بچہ حقیقت میں ضرورت مند ہے، اس لیے وہ کبھی انکار نہ کرتے۔ سلیم بھی استاد کوبابا کی طرح سمجھتا تھا۔ استاد کو یہ بات معلوم تھی کہ وہ شروع سے ایسی پریشانیوں کاشکار نہیں تھا۔ جب تک سلیم کے والد زندہ تھے، اسے کبھی پانی پینے کے لیے بھی خود اٹھنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ سلیم کے چاچا اور ابا کی کپڑے کی مل تھی۔ وہ ایک اچھے اسکول میں پڑھتا تھا۔ اچانک ایک حادثے نے اس کی زندگی کو پلٹ کررکھ دیا۔ اس کے والد کار حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ والد کے بعد چچانے ساری جائدادا پنے قبضے میں لے کر انھیں ہر طرح سے محتاج کردیا۔ اس کی والدہ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور فالج کاشکار ہوگئیں۔ چچانے اتنی مہربای کی کہ انھیں رہنے کو ایک کمرے کامکان دے دیا۔ اب ماں پی اس کاسب کچھ تھی۔ سلیم نے ایک مکینک کی دکان پر کام شروع کردیا۔ ایک دن اس کی اندھیری دنیامزید تاریک ہوگئی۔ اس کی ماں راتوں رات چپ چاپ دوسری دنیا سدھا رگئی۔ استاد ہی نے اس کی ماں کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ سلیم خود کو اپنی ماں کی موت کاذمے دار سمجھ رہاتھا۔ اگلے دن وہ استاد کے پاس گیا، مگرآج وہ ایک فیصلہ کرچکاتھا۔ اس نے استاد سے کچھ پیسے اُدھار لیے اور کچھ سلے سلائے کپڑے خرید کر بیچنے نکلا پڑا۔ کم منافع رکھ کر اس نے سارے کپڑے بیچ دیے۔ آہستہ آہستہ وہ اپنا نام مارکیٹ میں بناتا چلاگیا۔ لوگ آنکھیں بندکرکے اس پر بھروسا کرتے تھے۔ آخر وہ وقت بھی آیاجب اس نے ایک دکان مارکیٹ میں خریدلی۔ اب وہ بایس سال کاہوگیا تھا۔ اس کاشماربڑے کارباری لوگوں میں ہونے لگا۔
چندبرسوں میں اس کاکاروبار پورے شہرمیں پھیل گیا۔ کپڑے کی مل لگانا اس کا خواب تھا، وہ بھی پورا ہوچکاتھا۔ شہر بھر میں اس کی شہرت تھی۔ اس کے بہن بھائی بھی اب پڑھ لکھ گئے تھے، مگر احمد سلیم خود نہیں پڑھ سکے۔ اب وہ سیٹھ سلیم کہلاتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی کے بنائے ہوئے کپڑوں کے ڈیزائنوں نے بھی ان کی شہرت کوچارچاند لگادیے۔ اس عرصے میں وہ استاد کونہیں بھولے تھے اور ان کاہر ممکن خیال رکھتے تھے۔ صاحب اپلیز صاحب! بچالو․․․․․․․ یہ ان کاچچازاد بھائی تھا، جو انھیں پہچان نہیں پایاتھا، مگر سیٹھ سلیم اسے پہچانتے تھے۔ وقت نے اس کے پورے خاندان کو تباہ کردیا تھا۔ ایک لمحے کو انھوں نے سوچا کہ وہ اسے دھکے دے کر باہر نکلوادیں اور اپنی ماں کی موت کابدلہ لے لیں، لیکن وہ ایک اور ماں کو نہیں کھونا چاہتے تھے۔ اس درد کوان سے بہتر بھلا کون جانتا تھا۔
کوئی بات نہیں، تمھاری ماں میری ماں ہے۔ اس کے علاج کے ذمے داری میری ہے۔ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔ ان کے دل سے ایک بوجھ اُترچکا تھا۔ اپنی ماں کی موت کا بوجھ، جو وہ ایک ماں کو بچاکر ہی اُتار سکتے تھے۔