میں رات کی تاریکی میں کھڑکی کے قریب بیٹھا، ہاتھ میں قلم اور کاغذ لئے کچھ لکھنے کی کوشش میں بہت سے صفحے ضائع کر چکا تھا اور آسمان میں آدھے چاند کے ساتھ چند تارے تھے، نجانے کیوں اب شہروں میں تارے نظر آنا کم ہو گئے ہیں. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ ماہ پہلے جب میں اپنے گاؤں گیا تھا تو وہاں رات میں بہت سارے تارے جگمگا رھے تھے۔ کیا ہی دلکش منظر تھا، میں اس منظر کو دیکھ کر کھو سا گیا تھا، میرے لئے وہ منظر ایسا ہی تھا، جیسے برسوں بعد ایک قیدی، قید سے آزاد ہوتا ہے. اور آج یہاں اپنے کمرے کی کھڑکی کے باہر گنتی کے چند تارے، آدھا چاند اور خالی کاغذ، ایک نامکمل کہانی کا منظر پیش کر رہے تھے. بہت دنوں سے کچھ لکھا نہیں تو سوچا آج لکھنے کی کوشش تو کروں، مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہی یہ ہنر مجھ سے روٹھ نہ جائے، کہتے ہے روز اپنے ساتھ، اپنے ہنر کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چایئے. اس طرح ہنر تازہ رہتا ہے اور ہنر تازہ رہے تو روٹھتا نہیں ہے. لیکن مجھ سے آج کیوں نہیں لکھا جا رہا، میں نے خود سے سوال کیا؟ بہت کوشش کی، ایک کے بعد ایک کاغذ ضائع کیا لیکن کچھ خاص لکھ نہ پایا تو ہار مان کر سونے کیلئے لیٹ گیا۔
اگلی صبح آفس کیلئے تیار ہوا اور آفس چلا گیا، شام جب میں آفس سے واپس آ رہا تھا تو سوچا کہ آج اپنے استاد محترم کے پاس چکر لگایا جائے. سورج غروب ہو چکا تھا، پرندے اپنے اپنے گھروں میں جا چکے تھے اور میں جب استاد جی کی گلی میں پہنچا تو استاد جی نمازیوں کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھ کر آ رہے تھے. استاد جی نے مجھے دیکھا تو سب کو الوداع کہہ کر میری طرف متوجہ ہوۓ۔
اسلام علیکم، میں نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا۔
انہوں نے میرے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور مجھے ہمیشہ کی طرح ایک خوبصورت روح کا احساس ہوا. واعلیکم سلام کافی دنوں بعد چکر لگایا، چلو اندر آؤ تمہاری خبر لیتا ہوں آج۔ مسکراتے ہوۓ بولے
استاد جی کے ساتھ میرا تعلق دوستانہ ہے اور میں انہیں اکثر ازرائے مذاق بابا جی بولتا ہوں. وہ عمر میں اتنے بڑے نہیں ہے کہ انہیں بابوں سے تشبیہ دی جائے، میں ان کی باتوں کی وجہ سے انہیں بابا جی کہہ کر پکارتا ہوں۔
میں نے سوچا کیوں نہ آج بابا جی سے تصوف والی باتیں کی جائے، اس لئے حاضر ہوا ہوں. میں نے گھر میں داخل ہوتے ہوۓ ان کی مسکراہٹ کا جواب دیا۔
اچھا کیا تم آ گئے ہو، بہت دنوں سے تمہارے اس بابے کا مزاج اچھا نہیں ہے. استاد جی کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ بولے اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
خیریت ہے نہ، کیا ہوا آپ کے مزاج کو؟ میں نے بیٹھتے ہوۓ سوال کیا
اب کیا بتاؤں اس معاشرے کے رویوں سے اداس ہو جاتا ہوں. جب بھی دیکھتا ہوں کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے گلشن کو برباد کر رہے ہیں۔
جی بلکل آپ بجا فرما رہے ہے، لیکن ایسا کیوں ہے؟ میں نے سوال کیا
ایسا اس لئے ہے جب ہم اپنی ذات کو کسی اور کے حوالے کر کے، اس کے اشاروں پر چلتے ہیں. اب دیکھو نہ ہر کوئی کسی نہ کسی کے اشاروں پر چلتا ہیں. کوئی بھی خود سے نہیں سوچتا، ہر کسی کے پاس ایک ہی تو رب ہے، جس سے وہ بات کر سکتا ہے، جس سے دوستی کر سکتا ہے، اس پاک ذات کے اشاروں پر کوئی نہیں چلتا. بس ایک شخص ہوتا ہے، جس کا پلو تھامیں سب چلتے جاتے ہیں. مشورہ کرنا چایئے، جیسے تم مجھ سے مشورہ کرنے آتے ہو لیکن مشورہ کرنے کے بعد ایک اپنی سوچ رکھتے ہو، اپنی سوچ کے مطابق عمل کرتے ہو۔
آج میری تعریف کر رہے ہے. میں نے مسکراتے ہوۓ کہا
جی کرنی بھی چایئے، مجھے اچھا لگتا ہے کہ تم اپنا راستہ خود بنا رہے ہو۔
میں نے بہت دنوں سے کچھ نہیں لکھا، مجھے بتائیں ایسا کیوں ہے؟ میں کیوں نہیں لکھ پا رہا ہوں؟ میں نے اپنی بے چینی کا اظہار کیا
786
786؟ میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
مطلب کے لکھنے سے پہلے 786(بسم اللہ) لکھتے ہو؟
نہیں لکھتا،
لکھا کرو، بسم اللہ کی برکت سے پھر برکت میں ہی رہو گئے۔
استاد جی نے تو مجھے سوچ میں ہی ڈال دیا. میں نے تو ایسے سوچا ہی نہ تھا. درست فرما رہے ہے استاد جی، یہ میں نے پہلے کیوں نہ سوچا، میرے قلم کو پہلے 786 ہی لکھنا چایئے. اس ہی سوچ میں، میں نے استاد جی کو الوداع کہا اور خیالوں میں گم گھر پہنچا.
کمرے میں کھڑکی کے قریب خالی کاغذ اور قلم، آسمان میں چند تارے اور آدھا چاند اور وہی آدھی کہانی، جسے مکمل کرنے کیلئے میں نے کاغذ کے اوپر 786 لکھا اور پھر میرا قلم لکھتا ہی چلا گیا۔
آج کا دن ہے کہ کچھ لکھا جائے
اپنے آپکو ڈھو نڈا جاۓ
جو نہیں معلوم اس کی کھوج لگائی جاۓ
یہ زمانہ کیوں ہے ایسا
بے سبب، آرزوؤں میں ڈوبا ہوا
کوئی سگریٹ کے دھوئیں سے خود کو جلاتا ہے
تو کوئی روشنی کو لئے سب کو راستہ دکھاتا ہے
ان گنت کہانیاں، لا تعداد افسانے، لکھے جا چکے ہیں
تمہیں اب کس کی تلاش ہے
تم کیوں نہیں سمجھتے، تم کیوں نہیں جانتے
آج کا دن ہے کہ کچھ لکھا جائے،
اپنے آپ کو ڈھونڈا جائے،
جو نہیں معلوم، اس کی کھوج لگائی جائے
اور جس کی کائنات ہے
ابتدا بھی اسی سے کی جائے۔
مسافر