سنہ 1999-2000عہ میں میں ڈھوک کٹھان موضع آڑا تحصیل چوآ سیدن شاہ کے علاقے میں کوئلے کی ایک کان میں بطور مائیننگ انجینئر کام کرتا تھا۔ مائن اونر نے پہلے تو چوآ میں واقع سب آفس میں رہائش دی مگر بعد میں سائٹ پر شفٹ ہو نیکا کہا تاکہ جیسے بھی ہو آنیوالے سیزن میں پیداوار بڑھانے کے انتظامات کروں ۔ قارئین کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں کہ معدنی کوئلے کا سیزن مارچ سے جون اور پھر ستمبر سے نومبر تک عروج پر ہوتا ہے۔ شدید سردی میں ایندھن کی زیادہ کھپت کیوجہ سے اینٹوں کے بھٹے بند ہو جاتے ہیں اورجولائی اگست میں برسات کیوجہ سے کانیں بند کرنی پڑتی ہیں ۔ مائن اونرز کا رویہ انجینئرز کے ساتھ عموما” قابل تعریف نہیں ہوتا وہ انہیں بوجھ سمجھتے ہیں ۔ قانونی مجبوری کے تحت ملازمت دینی پڑتی ہے مگر مناسب تنخواہ اور مراعات شاید ہی کوئی فرم دیتی ہو۔ قصہ مختصر میں سائٹ آفس شفٹ ہو گیا جو ڈھوک کٹھان سے کوئی نصف کلو میٹر دور بلندی کیطرف تھا ۔ آفس کیا تھا چار کمرے تھے جن کے آگے ایک برآمدہ تھا۔ ایک کمرہ کے ساتھ اٹیچ باتھ تھا جو مجھ سے پہلے صرف مالک کے آنے پر کھولا جاتا تھا ۔ سامنے ایک چار پانچ کنال کا کھلا احاطہ تھا جو کوئلہ سٹاک کرنے کیلئے
استعمال ہوتا ہے وہاں کی مقامی زبان میں اسے پیڑہ کہتے ہیں ۔ اسکی چار دیواری کئی جگہ سے گر چکی تھی لہذا انسانوں اور جانوروں کی آمد و رفت بلا روک ٹوک تھی۔ میں نے اٹیچ باتھ کمرے میں ڈیرہ لگایا اگرچہ پرانے نمک خواروں نے کہا کہ یہ کمرہ نہ استعمال کریں مالک برا منائیں گے مگر میں نے انجینئرز کی عزت رکھتے ہوئے ہمت کی اور اسی کمرے میں رہائش اختیار کی۔ سائٹ پر میرے ساتھ ایک مائن سردار ( لیبر اور انجینئر کے درمیان ایک کمپنی ملازم)، ایک کک کم خاکروب اور ایک چوکیدار رہتے تھے۔ مائن سردار سوات کا پٹھان تھا دوسرے دونوں اسی گاؤں کے تھے۔ چوکیدار کی ڈیوٹی شام سات سے صبح سات تک ہوتی تھی۔ کک دن میں اپنے گھر آتا جاتا رہتا تھا اور رات کا کھانا سر شام ہی کھلا کر گھر کی راہ لیتا ۔ ایک اور بات بتاتا چلوں کہ اس آفس نما رہائش میں بجلی تھی نہ ہی پانی۔ بجلی تو خیر گاوں میں بھی نہیں تھی مگر اچھی خاصی کمپنی ہونیکے باوجود آفس میں کوئی جنریٹر وغیرہ نہیں تھا اس زمانے میں بھی لالٹین سے کام چلاتے تھے کیونکہ بیٹری سیل والی لائٹ سیل خاصے خرچ کرتی تھی ۔ ایسی جگہ میں اگلے آٹھ ماہ رہا۔ پانی کیلئے وہی کک صبح سویرے گدھے پر پلاسٹک کے کین لاد کر نزدیکی چشمے پر جاتا ۔ اگر ذرا دیر ہو جاتی تو گاوں کی عورتیں وہاں کپڑے دھو جاتیں، ایسے میں پینا تو درکنار منہ دھونے کو بھی من نہ کرتا مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق کبھی تو وہی پینا بھی پڑ جاتا۔ البتہ وہ جگہ گاوں کی نسبت بلندی پر ہو نیکیوجہ سے خوب ہوا دار تھی بلکہ اکثر آندھی کیطرح تیز ہوا چلتی جس سے گرمی کا احساس کم ہو جاتا اگرچہ دھوپ بھی تیز پڑتی تھی ۔
دن کا معمول کچھ اسطرح تھا صبح بیدار ہونا ، حوائج ضروریہ کے لیے پہلے پہل تو اٹیچ باتھ استعمال کیا مگر چند دنوں میں ہی پتہ چل گیا کہ اسکا اخراج عمارت کے عقب میں کھلی زمین پر ہے کوئی گڑھا وغیرہ بھی نہیں۔ زمین پتھریلی تھی گڑھا کھودنا بھی مشکل تھا۔ وہ تو مالکوں کے لئے صرف اشد ضرورت میں استعمال کیلئے تھا۔ اب اپنا کیا خود بھگتنا تھا لہذا قدیم دیہاتی طریقے کے مطابق لوٹا لیکر منہ اندھیرے دور باہر نکل جاتا اور کسی جھاڑی یا کیکری کی اوٹ کام آتی۔ واپس آکر نماز پڑھ کر کک کے آنیکا انتظار کرتا۔ خشک چپاتی اور تیل سے تربتر آملیٹ کھا کر ڈیڑھ کلو میٹر پیدل مائن پر جاتا ۔ سارا راستہ بیابان تھا مقامی زبان میں چھوئی کہلاتا ہے۔ بقول کک کے اس جگہ کچھ کیکر کے درخت پکے تھے یعنی ان پر جنات رہتے تھے۔ اکیلے گزرتے ہوئے مجھے بھی اپنے پیچھے کسی کے چلنے کی آواز آتی میں اکثر مڑ کر دیکھتا مگر پیچھے کوئی نہ ہوتا۔ کبھی کبھار دور اکا دکا مزدور یا مقامی شخص نظر آجاتا۔ مائن ماؤتھ خاصا نشیب میں ایک پہاڑی نالے کے کنارے تھا۔ ایسی جگہیں ویسے بھی جنات کی آبادی کیلئے مشہور ہیں ۔ مائن پر جا کر حاضری اور پروڈکشن چیک کرتا۔ مزدوروں یا کمپنی ملازمین کے ہاتھوں کا بنا کالی چائے کا قہوہ پیتا اور مائن کے اندر چلا جاتا۔ کوئلے کی کان میں جانازندہ قبر میں جانے سے کم نہیں ۔ مائن سے باہر واپسی پر سانس پھولی ہوتی ، کچھ دیر سستاتا۔ ضروری کام کاج نپٹانے تک دوپہر کے ایک بج جاتے پھر پیدل واپسی ہوتی اور عموما” کھانا تیار ملتا جو زیادہ تر دال یا ترکاری اور روٹی ہوتی ۔گوشت ہفتے میں ایک یا دو دن کیونکہ اسکے کیلئے تقریبا چار کلومیٹر دور آڑا نامی قصبے میں جانا پڑتا تھا وہ بھی صبح سویرے ۔ دوپہر کا کھانا کھلا کر کک اپنے گھر چلا جاتا یا ساتھ والے کمرے میں لیٹ جاتا میں بھی آرام کرتا اور سپہر کو اٹھ کر نماز عصر کے بعد چائے کا دور چلتا۔ پہاڑی و بارانی علاقہ ہونیکی وجہ سے دودھ کی بھی کمی تھی ڈبوں والا دودھ استعمال کرتے جس کی چائے میں گھر کا سا مزہ نہیں تھا۔ اسکے بعد نماز مغرب اور پھر رات کا کھانا اور پھر عشاء کے بعد ہم تین لوگ اس بیابان میں رہ جاتے۔ مائن سردار چلتا پھرتا بندہ تھا وہ اکثر پٹھان مزدوروں کے ساتھ گپ شپ کیلئے چلا جاتا اور وہیں رہ جاتا۔ ایسے میں میں اور چوکیدار اکیلے رہ جاتے ۔ مجھے بچپن سے ناول ، افسانے پڑھنے کا بہت شوق رہا ہے۔ وہاں بھی رات سونے سے پہلے لالٹین کی روشنی میں دیر تک کوئی نہیں کوئی کتاب پڑھتا رہتا تھا۔ ان دنوں مشہور سلسلہ وار کہانیاں انکا، اقابلا وغیرہ جو ڈائجسٹ کی شکل میں شائع ہو چکی تھیں اور جادو و ماورائی علوم پر کتابیں زیر مطالعہ رہیں وہاں کا ماحول بھی تھوڑا عجیب سنسان سا تھا ۔
امید ہے آپ کے ذہن میں اس جگہ، میری رہائش اور معمولات کاخاکہ بن چکا ہو گا۔ اب اصل واقعہ کیطرف آتے ہیں ۔ یہ دسمبر 2000 کی بات ہے۔ موسم سرشام ہی طوفانی بن گیا تھا۔ شدید سردی اور برفیلی ہوا۔ میں اور چوکیدار وہاں اکیلے تھے۔ چوکیدار کے گھر سے بھی بلاوہ آگیا کہ اسکی بھیڑیں گھر نہیں پہنچیں ۔ میرے اکیلے ہونیکی وجہ سے کچھ دیر تو چوکیدار نے صبر کیا مگر پھر کہنے لگا کہ سر اگر میں بھیڑوں کے پیچھے نہ گیا تو وہ مر جائیں گی۔ اور یہ کہ اگر موسم بہتر ہوا تو وہ ڈیوٹی پر آجائیگا ۔ میں اجازت دینے کے علاوہ کیا کر سکتا تھا۔ اسے کہا کہ اگر خود نہ آسکے تو کک کو بھیج دے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے سر! چوکیدار ریٹائرڈ فوجی تھا ایک ٹانگ لکڑی کی تھی لاٹھی کا سہارا بھی لیتا تھا۔ اسکی لاٹھی کی آواز تھوڑی دور تک آئی اور پھر غائب ہو گئی۔ اسکے جانیکے کچھ ہی دیر بعد یکایک طوفان بادوباراں اور ژالہ باری شروع ہو گئی اور میں سمجھ گیا کہ اب یہ واپس نہیں آئیگا۔ میں نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔ تمام دروازے اور کھڑکیاں لوہے کی تھیں ۔ رضائی میں گھس گیا مگر نیند نے بھی کہا کہ آج نہیں آنا۔ کچھ دیر بعد آسمانی بجلی لگاتار کڑکنے لگی اور واضح طور پر لگا کہ لوہے کی کھڑکی پر بجلی گری ہے۔ میں نے چارپائی کھینچ کر کمرے کے وسط میں کرلی۔ مگر بجلی تو اس طرح لپک لپک کر آ رہی تھی کہ جیسے آج اس عمارت کا نام و نشان مٹا دیگی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھی کہ کیا کروں! بادلوں کی ویسی گرج چمک نہ پہلے دیکھی تھی نہ بعد میں ۔ اللہ اللہ کرکے قریبا” دو گھنٹے کے بعد گرج چمک تھمی اوربارش قدرے کم ہوئی تو اس کی جگہ تیز ہواؤں نے لے لی۔ اتنے میں اکلوتی لالٹین بھی بجھ گئی۔ تھوڑی آنکھ لگی ہی تھی کہ کسی عجیب سی آواز نے دوبارہ جگا دیا۔ رات کے اڑھائی بجے کا پہر تھا۔ ایسا لگا باہر کچھ عورتیں ہنس رہی ہیں ۔ اور بھی کچھ نہایت عجیب آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ طوفانی رات کے اس پہر عورتوں کا وہاں کیا کام؟ کبھی ایسے لگے کوئی دروازہ بجاتا ہے۔ میں خوف کے مارے رضائی کے اندر گھس کر لگاتا آیت الکرسی کا ورد کرنے لگا۔ آخرکار فجر کے نزدیک وہ تمام آوازیں بند ہوئیں ۔مجھے مزید یقین ہو گیا کہ یہ دوسری مخلوق تھی جو مجھے اکیلا پاکر وار کرنا چاہتی تھی۔ جیسے ہی فجر ہوئی تو انکا وقت ختم ہو گیا۔ یونیورسٹی کے دور میں دیکھی گئی انگلش مووی “From Dusk Till Dawn” بھی ذہن میں آئی۔ ساری رات کا جاگا ہوا علی الصبح سویا تو کسی کے دروازہ بجانے پر بھی نہ جاگا۔ کہیں ساڑھے نو بجے جا کر آنکھ کھلی تو باہر دن نکلا ہوا تھا اور دھوپ بھی تھی۔ لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ میں باہر نکلا اور چوکیدار اور کک پر غصہ نکالنے لگا۔ چوکیدار نے عذر پیش کیا کہ وہ معذور آدمی ہے راستے میں اندھیرے اور پھسلن کیوجہ سے گر سکتا تھا ۔ اس نے بتایا کہ اس نے کک کو میرے پاس جانیکا کہا تھا۔ اب میں کک کی طرف متوجہ ہوا اس نے کہا کہ اسکا گھر کچا ہے شدید بارش کیوجہ سے بہنے لگا تھا وہ اسکی مرمت میں لگا رہا۔ ویسے بھی آپ کھانا کھا چکے تھے صرف سونا تھا لہذا اس نے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ پھر وہ دونوںپریشانی اور غصے کیوجہ پوچھنے لگے تو میں نے رات بیتی سنائی ۔ وہ ہنسنے لگے اور بتایا کہ وہ عورتیں یا چڑیلیں نہیں گیدڑ تھے اور دوسری آوازیں ٹیلیفون کے انٹینے سے آندھی گزرنے سے آرہی تھیں۔ انہوں نے مجھے گیدڑوں کے پاؤں کے نشان بھی برآمدے میں دکھائے۔ بجلی کا البتہ انہوں نے بتایا یہاں قریب ہی گری ہے اور دو کیکر کے درخت اور جھاڑیاں جل گئی ہیں ۔ انہوں نے مسکراتے مسکراتے معذرت کی۔ میری زندگی کی بہرحال یہ خوفناک ترین رات تھی۔ اور اس ویرانے کے پکے ہونیکا مجھے آج بھی یقین کی حد تک شک ہے۔
