آج صبح ہی صبح جب میں نے آلو والی ٹوکری میں جھانکا تو جھاڑنے سے بھی کوئی نہیں نکلا۔ اب سبزی والے کا انتظار کون کرے ۔ بچیاں اسکول سے آتی ہوں گی اور آتے ہی بھوک بھوک کا شور مچا دیں گی۔اب بندی کرے تو کیا کرے۔ نازی ٹھیک ٹھاک محبوب بیوی تھی۔ وہ جانتی تھی وہ کہنے کی کیا ضرورت ہے بھلا ، کہتے ہیں ڈھنڈورا تو وہ پیٹیں جو اندر سے خالی ہوں- سرمد بڑے غور سے سن رہا تھا پانچ سال پرانی بیوی کو ۔ نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی نے بتایا کہ وقت نے نازی کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا۔ وزن ذراسا بڑھا ضرور ہے مگر باقی وہ ویسی کی ویسی تھی۔ زندگی میں پہلی بار پہلی ہی بندی نازیہ احسان پر مر مٹنے والا سرمد آج بھی اس کا گرویدہ تھا۔ چاروں شانے چت۔ یہ محبت ہوتی ہی ایسی ہے کبھی کر کے تو دیکھو، تمہارے نام سے جس کو نسبت نہ ہوگی۔ وہ افسانہ ہو گا حقیقت نہ ہوگی۔ تو پھر بندی نے کیا کیا آخر جو آلو گوشت بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ کرنا کیا تھا۔ میں کئی سیدھی عائزہ کے گھر، بھئی دو چار آلو ہی دے دو۔ کہنے لگی۔ نازی آپی پرسوں ختم ہوۓ ہیں انڈے پڑے ہیں فریج میں وہ بنالو۔ تمہیں تو پتا ہی ہے سرمد ، انڈے مجھے کتنے برے لگتے ہیں۔ بی پی فورا ہائی ہو جاتا ہے، کھانے کے بعد والا عذاب کون جھیلے پھر میں نے دیکھا فائز بھائی صاحب بازار سے ہو کر آ رہے تھے۔ بہت سارے نیلے پیلے شاہراٹھا رکھے تھے۔ بے چارے بیٹھنے کے بجاۓ فورآ بازار گئے اور آلو لا کر دیے۔ پھر بنایا میں نے مزیدار گرما گرم آلو چکن کا سالن کیوں اچھا بنا ہے ناں۔ آخر میں اس کی مسکراتی آنکھیں گول گول گھومیں۔ بہت اچھا لگا مجھے ۔ بنایا کس نے ہے۔ وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دیا تھا۔ نازی کے وہاں جانے کا سن کر- اس فائز بھائی صاحب کا نام تو فائزہ بہن جی ہونا چاہیے تھا۔ لعنتی کہیں کا۔ ہر جگہ دستیاب ۔ پتا نہیں یہ نکل کہاں سے آتا ہے۔ ایک بار پھر دل ہی دل میں نازی کے بہنوئی کو کوستے ہوۓ وہ خاموش ہو گیا تھا۔ *** فائز ، نازی کا اکلوتا بہنوئی تھا اور عائزہ چھوٹی ایک اکیلی بہن ، بہن سے محبت کی حد تک تو سب ٹھیک تھا۔ چلو بہن ہے، وہ بھی چھوٹی مگر نازی کی عقیدت فائز بھائی صاحب سے بھی کچھ کم نہیں تھی۔ فائز بھائی اندر آئیں ناں، بیٹھ جائیں۔ آپ کے لیے چاۓ لاؤں۔ بھی بچو ریموٹ فائز انکل کو دے دو انکل کو تنگ بالکل نہ کرو۔ بری بات رمشہ بند کرو یہ چیخ پکار انکل کیا سوچیں گے یہی ناں کہ رمشہ اور آمنہ گندی بچیاں ہیں۔ یہ وہی ریموٹ تھا جو اکثر نازی اس کے ہاتھ سے چھین کر بچوں کو تھما دیا کرتی تھی۔ بچیاں ہیں یہ چاردن ہیں کھیلنے کودنے کے اور آپ ہیں کہ اس منحوس ریموٹ کی خاطر بچوں کی طرح منہ پھلا کر بیٹھے ہیں ۔خبروں کے لیے اخبار ہے ناں ،آمنہ چندا، فورا پاپا کو اخبار اکٹھا کر کے دو- اخبار کے اوراق کچھ بیڈ کے نیچے اور رنگین صفہ پر محترمہ نازی صاحبہ تشریف فرما ہوتیں۔ اوہ سوری سرمد، یہ بچیاں بھی ناں ہوش بھلا دیتی ہیں۔ ابھی اچھا بھلا بیٹھ کے پڑھ رہی تھی اور اب اوپر چڑھ کر بیٹھی ہوں ۔ یہ لیں ٹھیک کر دیا ہے۔اب ناراض تو نہ ہوں۔ آخر میں منہ پھلا کر ناراض نہ ہونے کی فرمائش بھی ہوئی۔ عینک رکھی کہاں تھی یہ بھی ذرا یاد کر لیں، اوہو یہ لیں ادھر ہی تھی۔ آپ چلیں میں چاۓ لے کر آتی ہوں ۔ سرمد فطرتا محبت کرنے والا انسان تھا اور نازی کے لیے تو یوں بھی اس کے دل میں جگہ ہی جگہ تھی۔ وہ اکثر ایل ای ڈی سے دور ہی رہتا مگر یہ فائز اس کی دفعہ تو اسے خوب غصہ آتا تھا۔ یہ نازی کو بچیوں کے چار دن کیوں بھول جاتے ہیں اس کی دفعہ، با تیں تو وہ بھی فائز سے کر لیتا تھا مگر اندر ہی اندر کڑھتا رہتا تھا۔ نازی کہتی تھی۔ اسے جلن کہتے ہیں سرمد آپ جلا نہ کر یں۔ کیا میں جلتا ہوں۔ اس بدبختی کا آغاز ہوۓ کچھ ہی مہینے ہوۓ تھے سرمد کی شادی بڑی مشکل سے ہوئی تھی نازی سے۔ سوقسم کے بڑے اور مختلف قسم کے چھوٹوں کی مخالفت کے باوجود اس نے جو سوچا تھا کر دکھایا تھا ۔ اس میں نازی کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ تو رشتہ دار سمجھ کے مسکرائی تھی اور وہ امی سے بات کر بیٹھا۔ بس یہیں سے مشکلات کا آغاز ہوا تھا۔ شادی کے بعد بھی امی اور باجیوں کا منہ بہت عرصے تک سوجا رہا تھا۔ جب سوجن اتری تو ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز ہوا تھا۔ ایک طرف وہ سب سے چھوٹا امیدوں کا مرکز ، بہنوں کا راج دلا را، اسے لعنتی مردوں کا خطاب پانے میں بہت کم عرصہ لگا تھا۔ اور دوسری طرف نازی وہ بھی انہیں کسی بھی طرح معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اینٹ کا جواب پتھر سے آنے لگا تھا۔ اس روز روز کی چیخ چیخ کا نتیجہ علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہوا تھا ۔ گود میں دو جڑواں بیٹیاں لیے نازی سامان سمیت رخصت ہونے والی تھی جب بڑی باجی فرمانے لگیں- ہماری بد دعاؤں کا نتیجہ ہیں یہ دو لڑکیاں۔ تمہاری دفعہ کس نے بد دعا دی تھی تمہاری اماں کو؟ جواب پٹاخ سے آیا تھا۔ اس عذاب کو کوئی کہاں تک جھیل سکتا تھا آخر اس تماشے کو اب بند کرنا ہی اچھا تھا۔ پھر نازی کی فرمائش پر سرمد نے ٹھیک اسی کالونی میں گھر لے لیا تھا۔ جہاں نازی کی چھوٹی بہن عائزہ ایک گلی چھوڑ کر رہتی تھی ۔ آنا جانا اب لگا ہی رہتا تھا جب ایک دن اس نے پیار سے نازی کو سمجھایا تھا۔ نازی، میری جان ، عائزہ کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر فائز تمہارا صرف بہنوئی ہے۔ اتنی بے تکلفی ٹھیک نہیں ہے۔ اور وہ بے تکلفی کیسی ہے جو آپ کو آزر بھائی کے ساتھ درکار ہوتی ہے۔ سیدھی بات کیوں نہیں کہتے ۔ سرمد تمہیں نہ میں اچھی لگتی ہوں نہ میری بہن اور فائز تو بالکل میرے بڑے بھائی کی طرح ہے ۔ ٹھیک ہے کہ ہم دونوں بہنوں کا کوئی بڑا بھائی نہیں ہے مگر فائز بھائی ۔ تو مجھے اپنے بھائی کی طرح لگتے ہیں۔ اچھی نہیں لگی تمہاری یہ بات مجھے۔ اپنوں کی دفعہ تو۔ اب سرمد اپنے بہنوئی آزر بھائی اور سامعہ آپا کو آنے سے منع تو نہیں کر سکتا تھا بڑی مشکلوں سے تو انہیں راضی کیا تھا ورنہ وہ یہ گستاخی برداشت کرنے کو تیارنہیں تھیں، بھلا ہوا ماں کا انہوں نے ہی سمجھا بجھا کر انہیں آمادہ کیا تھا کہ انہیں سرمد اور نازی کے بیچ فساد ڈالنے کی کوششیں ترک نہیں کرنی چاہیے آخر دنیا امید پر قائم ہے۔ *** صبح صبح وہ بڑے زور وشور سے سیڑھیاں چڑھ کراوپر آئی تھی جہاں فائز اورعائزہ بیٹھے چاۓ پی رہے تھے۔ السلام علیکم آپا، فائز نے نہایت ہی ادب سے سلام کیا تھا۔ یہ سرمد بھی ناں اسے اچانک ہی سرمد یاد آ گیا تھا۔ سلام کا جواب دے کر وہ ایک کرسی پر ٹک گئی تھی بچیوں کو اس نے ابھی ابھی اسکول بھیجا تھا فائزعائزہ دونوں ہی اس کا بہت احترام کرتے تھے اسے بھی ان کے درمیان بیٹھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ فائز اٹھ کر چلا گیا تھا اور گرما گرم چائے کے ساتھ بسکٹ لے کر لوٹا تھا۔ بہت شکریہ بھائی میں خود بنا لیتی آپ نے کیوں تکلف کیا۔ اس کی سعادت مندی پر اسے جی بھر کر پیار آیا تھا۔ کتنا اچھا آدمی تھا اس کا بہنوئی یہ خیال اسے اکثر ان کی طویل سیڑھیاں چڑھتے ، چائے پیتے کبھی ان کے گرم کمرے اور کبھی ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کرآیا کرتا تھا- یہ چھٹا مہینہ تھا۔ اس چھت بھری ہمسائیگی رشتے داری کا جو دل میں ٹھنڈ ڈال دیا کرتا تھا۔ اچھا اب میں چلوں اور فائز بھائی، بازار سے یہ بچیوں کے فیورٹ نوڈلز لیتے آیئے گا۔ ارے یہ سوروپے آپ رکھیں باجی ، اب کوئی زیادہ سامان تو ہے نہیں ، یہ میں لے آؤں گا۔ اللہ تمہیں پیارا سا بیٹا عطا فرماۓ۔ پیسے واپس پکڑتے ہوئے نازی نے خوشی سے دعا دی تھی- یہ اپنے جب اپنوں جیسا سلوک کریں تو کتنی خوشی ہوتی ہے، ایسی ہی نازی کو بھی ہوئی تھی۔ ہاں بس اب دے دے اللہ پچھلے مہینے بھی لیڈی ڈاکٹر چینج کی تھی ان گولیوں ٹیکوں سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا، آپ کوئی مشورہ ۔ فائز نے اپنے دل کی باتیں کہنا شروع کر دی تھیں اور اس نے جلدی سے نکلنے میں ہی عافیت جانی تھی۔ پتا نہیں وہ اور کون کون سے مسائل بیان کرنے والے تھے۔ یہ فائز بھائی بھی ناں یہ بھلا کہنے کی باتیں تھیں اسے سن کر شرم محسوس ہوئی تھی اور عائزہ نے بھی یقینا اچھا محسوس نہیں کیا تھا۔ پریشان ہیں ناں اس لیے ۔ نازی نے خود ہی سوچ لیا تھا – بات مہنگائی، بچت ،اپنوں کی بے وفائی تک اکثر پہنچ جایا کرتی تھی اور اب۔ ہاۓ اب بندہ کیا کہے۔ *** آج نازی نے گھر کی صفائی بہت دل لگا کر کی تھی ۔سارے پودوں کی کانٹ چھانٹ اور پھر بعد میں سامان کی لسٹ بنائی تھی۔ سرمد ایک ہفتے کے لیے شہر سے باہر گئے ہوۓ تھے۔ اس کے پاس بہت سارے پیسے موجود تھے اور اس پہ کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں تھا ۔ اسی وجہ سے وہ اچھے خاصے پیسے بچا بھی لیتی تھی۔ سامان کی مختصرسی لسٹ لے کر وہ گھر سے نکلی ہی تھی کہ فائز بھائی صاحب مل گئے ۔ بازار جا رہا ہوں آ پی ،آپ بھی آ جائیں ۔ ان کی بائیک کو غنیمت جانتے ہوۓ نازی ان کے پیچھے جا بیٹھی تھی راستے کی ان کی ساری گفتگو کا لب لباب یہی تھا۔ کہ مہنگائی بہت ہوگئی ہے۔ اف کتنا بولتے ہیں ہے۔ نازی سن سن کر تھک چکی تھی مگر وہ بول بول نہیں تھکے۔ اس نے پالک آلو، چنا چاٹ اور بہت سا دوسرا سامان خریدا۔ فائز بھائی نے آرام سے اس کا انتظار کیا تھا اور وہ دونوں سیدھے ان کے گھر ہی چلے آۓ تھے۔ چائے پینے کے بعد جب وہ بھاری شاپر اٹھاۓ سیٹرھیاں اتر رہی تھی۔ ایک بے تکلف ہاتھ اس کے کندھے پہ آ ٹھہرا تھا وہ سمجھی عائزہ ہے۔ تھک جائیں گی۔ میں اٹھالیتا ہوں۔ ان کا ہاتھ یقینا کہیں آگے کا بھی سفر کرنے والا تھا کہ وہ فورا پیچھے ہوئی تھی شکر تھا ایک بڑی چادر اس نے لے رکھی تھی۔ یہ سارا سامان میں خود لے جاؤں گی۔ پیچھے ہٹیں آپ۔ اس کا لہجہ ا یک دم بہت سخت ہو چلا تھا۔ میں تو پتا نہیں وہ کیا امید کر رہے تھے پھر ایک دم سے پیچھے ہٹے تھے۔ قصور اس کی بہنوئی کا ہرگز نہیں تھا اس کا تھا جس نے اپنی حدود کا خود خیال نہیں رکھا تو وہ کیوں رکھنے لگے۔ *** سنو تم وہ اپنے بھائی صاحب کی طرف نہیں گئیں۔ ہروقت اچھا تو نہیں لگتا ناں۔ آپ ہی تو کہتے ہیں۔ ارے اتنی سمجھ داری۔ اب وہ اتنی تو سمجھ داری تھی ہی کہ اس منحوس بھائی صاحب کی حرکت کے بارے سرمد کو نہ بتاتی بلکہ خود ہی محتاط ہو جاتی ۔ سرمد نے اس کی اس بات پر سکون محسوس کرتے ہوۓ چاۓ کا کپ تھام لیا تھا۔ چلو یہ بھائی صاحب والا قصہ توختم ہوا۔ (ختم شد)
