وہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ سو روپے کے نوٹ کو دیکھتا رہا۔۔اور دل میں سوچتا رہا۔ ۔دل اداس تھا گھر پہنچا بامشکل ایک وقت کا کھانا ہی کما کر لایا تھا۔ دونوں بچے خاموشی سے باپ کو دیکھ رہے تھے دلوں میں نفرت لیے۔۔ نفرت کیوں؟کیوں کہ انکی ماں نے ان کے دلوں میں آگ لگا دی تھی نفرت کی۔ سارا دن چخ چخ میں گزرا۔ ہاے کوئی عورت اس طرح گزارا نہیں کرے گی۔ میری جگہ کوئی اور ہوتی تو کب کا بھاگ جاتی یہ میں ہوں جوتمھارے باپ کو برداشت کر رہی ہوں۔۔نہ کام کا نہ کاج کا۔۔ہونہہ جب ایک عورت ہی اپنے بچوں کے سامنے اپنے شوہر کو کوسنے دیتی ہو۔۔تو بچے کب اپنے ابو کی عزت کریں گے۔ یہ رات کے کھانے کے لیے کچھ سودا سلف لایا ہوں ذرا روٹیاں بنا دو۔ نوکری کا چھوٹ جانا ارشاد کی زبان کو گنگ کر دیا تھا۔ اور بیگم اپنی فرمائشیں طعنوں کے ساتھ طنز کے تیر تاک تاک برساتی رہی۔۔اب وہ چپ کر گیا تھا۔۔دل سے اواز آتی۔ غلط تو بیگم بھی نہیں ہے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے روٹی چاہیے تھی اب اگر نوکری نہیں تو پیٹ کب صبر کرتا ہے؟ چودہ سال کی بیٹی کو دیکھتا۔ جس سے ارشاد کو بہت محبت تھی۔ تب ذہن میں
پرانے ٹی وی اشتہار کا گیت گونجتا ایک چھوٹی بچی گاتی ہے اے خدا میرے ابو سلامت رہیں۔۔ اے خدا میرے ابو سلامت رہیں۔۔ وہ یہی سوچتا دل ہی دل میں کہ اس کی بیٹی بھی دل ہی دل میں اس کے لیے کچھ ایسے ہی نیک تمنائیں اور دعائیں رکھتی ہو گی۔ لیکن ماں کی سارا دن کی چخ چخ نے بیٹی کے دل دماغ میں نفرت بھری تھی۔ میں روٹیاں نہیں بناوںگی۔ سمجھے آپ۔۔ اور ہاں کچھ پیسے دو لا کر بچوں کی فیس جمع کرانی ہے ورنہ سکول سے نکال دیے جائیں گے۔۔ سخت لہجے میں ساری بات اس کے گوش گزار کی۔ ارشاد تھوک نگل گیا گہری سانس لے کر آہستگی سے بولا بیگم تم تو جانتی ہو کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ بچے بھی خشمگیں نگاہوں سے اپنے ابا کو دیکھتے رہے۔ پھر ارشاد بولا بیگم بچے بھوکے ہونگے خدارا کچھ بنا لو۔۔صرف روٹیاں بنا دو سالن تو میں لایا ہوں چنے ہیں ایک پلیٹ بیگم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا۔کہ بیٹی سے کہو کچھ بنا دے گی پھر کھا لینا۔ وہ بہت پر امید سا اپنی بڑی بیٹی سارہ کی طرف دیکھنے لگا۔ اور ذہن کے کسی گوشے میں ٹی وی کمرشل والا گانا گونجا اے خدا میرے ابو سلامت رہیں لیکن وہ بھی پاوں پٹختی وہاں سے کمرے میں چلی گئی۔ ارشاد کو برا نہیں لگا جانتا تھا خالی پیٹ ہو تو کہاں کا احترام کہاں کی محبت؟ اس کی بیوی شہناز نے وضو کیا۔۔۔ اور نماز پر کھڑی ہو گئی۔ وہ کچن میں چلا گیا۔
دل میں خود کو لاچار محسوس کر رہا تھا۔ اس نے بہت محنت سے روٹیاں بنائیں۔ جو پہلی مرتبہ میں کافی بہتر بن گئیں۔ تین روٹیاں تھیں۔ چنے کا سالن گرم کیا۔ اور بچوں کے کمرے میں پہنچا۔ بڑے پیار سے نو سال کے اویس اور چودہ سال کی سارہ کو کہا۔ چلو بچو کھانا کھاتے ہیں ہاتھ دھو لیں۔ لیکن بچے خاموش رہے۔ ارے بچو کھانا نہیں کھایا ہو گا۔آجاؤ۔ سارہ نے بے زاری سے کہا ہم کھا چکے ہیں۔ امی کے پاس پیسے ہیں اتنے کہ وہ ہمیں بھوکا نہیں رہنے دیں گی۔ بیٹی کا گہرا طنز وہ دل پہ سہہ گیا۔ اس نے سوچا کہ بیٹی ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے سارا دن میں بس ایک وقت کا کھانا لا سکا۔ وہ چپ چاپ چند نوالے کھا کر باقی برتن کچن میں رکھنے گیا۔ لمبی نماز سے فارغ ہو کر جائے نماز اٹھانے والی شہناز نے اک اور تیر چھوڑا۔ کتنی روٹیاں بنانے پر آٹا خراب کیا۔ یہ روٹیاں ضائع چلی گئیں۔ اتنا کما کے لاتے نہیں جتنا تم نواب بن کر ضائع کرتے ہو۔ اس کے سخت لہجے اور تیز آواز پر ارشاد نے احتجاج کیا۔ بیگم آہستہ بچے سنیں گے تو ان کے ذہنوں پر برا اثر پڑے گا۔ ہونہہ بچے پہلے سے سب کچھ جانتے ہیں کہ آپ اگر کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہیں؟ کافی غصہ آیا تھا ارشاد کو اک بار پھر خون کے گھونٹ پی گیا۔ جانتا تھا کہ بچوں کے دماغ میں باپ کے لیے نفرت پیدا کر رہی ہے۔ اگر اتنی ہی فکر ہے تو غیرت کا مظاہرہ کریں اور کل سے کام کریں شام تک کچھ پیسے کمائیں۔ اور آپ بھی خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔۔وہ گھر میرا ہے میرے ماں باپ نے دیا ہے۔۔اس کا کرایہ میں گھر کے اخراجات پر نہیں لٹا سکتی۔ وہ چاہتا تھا جواب دیتا مگر خاموش ہوگیا۔ کہ ٹھیک ہی تو کہتی ہے شہناز۔ تم جانتی ہو۔میں بیمار ہوں تین ویسلز بلاک ہیں دل کے۔جس کی وجہ سے جاب گئی۔ مارکٹنگ کمپنی کے جی ایم نے مجھے کہا ہے کہ وہ بہت جلد مجھے جاب پر اپوائینٹ کریں گے۔ اس کا لہجہ پر امید تھا۔ جھوٹی تسلیاں ہیں سب۔ جو تمھیں بھی لارے پر رکھتا ہے۔ ان تسلیوں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ ارشاد صاحب۔ کل رات تک اگر کچھ کما کے نہ لا سکے تو یا تو گھر واپس نہ آنا۔اور یا پھر مجھے چھوڑ دینا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔اس کی آواز رندھ گئی۔ نہیں نہیں ۔۔میں اپنی سارہ اور اویس کی زندگی خراب نہیں کروں گا۔میں کل ہر حال میں کما کر لاوں گا وعدہ ہے یہ اک مرد کا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ بیگم بولیں اور اگر نہ لا سکے تو؟ تو ۔۔۔تو پھر میں بچوں سے ان کی ماں کو کبھی نہیں چھین سکتا۔وہ بے بسی سے بولا۔
اور کمرے کی طرف چل دیا۔ صبح نماز پڑھنے مسجد چلا گیا۔ناشتہ کرنے گھر نہ آیا۔یہ سوچ کر کہ ناشتہ کرتے وقت بیگم کی جلی کٹی مزید نہیں سن سکتا۔ آر یا پار ۔۔آج خود کا امتحان ہے۔ دن کے بارہ بجے تھے وہ بس کام ڈھونڈتا رہا نوکری یا کچھ کام دھندا۔کامیابی نہ ملی۔ اس کی بڑی بہن زاہدہ کا فون تھا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد پوچھا سناؤ اپنے شوہر کی۔ حالات کیسے ہیں گھر کے؟ شہناز رو پڑی۔ باجی جیسے آپ نے کہا تھا ویسا ہی کر دیا مگر میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے شوہر کے ساتھ ایسا رویہ نہیں روا رکھنا چاہیے۔ ارے دفع کرو۔۔۔م میرا مطلب ہے شوہر کو احساس ہی نہیں تمھارا یا بچوں کا۔تو تم کیوں ہلکان ہوئی جا رہی ہو؟ شہناز نے کل رات ہونے والی باتیں اس کے گوش گزار کر دیں۔ زاہدہ بولیں مشکل ہے شہناز کہ تمھارا شوہر راہ راست پر آجائے۔ پکا ہڈ حرام ہے اک بار کام نہ کرنے کی لت لگ جائے مرد کو تو پھر وہ کام نہیں کرتا۔لکھ لو میری بات کچھ مزید ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں اور فون بند ہوا۔شہناز کو اس بار زاہدہ کی باتوں سے اتفاق نہ تھا۔زاہدہ باجی ہر بات میں صرف نفرت ہی کے بیچ بورہی تھی۔۔اسے اندازہ تھا۔ دل میں ارادہ کیا کہ آئندہ وہ اپنے شوہر سے کبھی بدتمیزی نہ کرے گی۔اور نہ ہی اپنے گھر کی باتیں اپنی باجی سے کرے گی۔ خالی ہاتھ تو وہ گھر جانا نہیں چاہتا تھا کسی نے اسے اینٹیں اٹھانے کے کام پر لگا دیا دوسری منزل تک لیکر جانی تھیں۔ وہ کام میں جت گیا۔یہ بھول کر کہ وہ دل کا مریض ہے۔اسےخوشی تھی چلو کچھ کرنے کو ملا۔ لیکن پھر اسے شدید درد محسوس ہوا دل میں۔اور سیڑھیوں سے نیچے گر گیا۔ اس کی لاش کو گھر لایا گیا بیگم بہت غور سے ارشاد کو دیکھ رہی تھی۔اور سوچ رہی تھی کیسی عورت ہوں میں اپنے ہی ہاتھوں اپنا گھر تباہ کر دیا۔ اس کی بیٹی سارہ برامدے میں رکھی باپ کی لاش کے پاس آئی۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنے ابو دیکھنے لگی۔ اے خدا میرے ابو۔۔۔سلامت۔۔۔۔رہیں
وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔ اویس کی حالت ایسی ہی تھی۔ فوتگی کے تیسرے روز اس کے گھر پر ایک لیٹر موصول ہوا۔جو اپوائینٹمنٹ لیٹر تھا۔اس کمپنی سے جہاں ارشاد نوکری کے لیے انٹرویو دے کر آیا تھا۔ پچھتاوہ اے کاش میں کبھی باجی زاہدہ کی باتوں میں نہ آتی۔ایسا اس نے کیوں کیا میرے ساتھ۔سگی بہنیں بھی کبھی ایسا کرتی ہیں؟ قل پر زاہدہ نے اسے کہا۔کہ وہ گھر جو امی ابو نے تمھارے نام کیا۔اس میں میرا حصہ بھی ہے۔ لہذا اسے بیچو اور آدھی رقم مجھے دو ورنہ میں عدالت جاوں گی۔ شہناز کو شاک لگا کہ افتاد جو آن پڑی ہم پر باجی کو ذرا احساس نہیں۔ مگر باجی آپ کو آپ کا حصہ دے چکے ہیں امی ابو۔اس نے احتجاج کیا۔ نہیں اس گھر میں میرا بھی حصہ ہے وہ ڈٹی رہی۔ اور پھر زاہدہ نے واقعی عدالت کا دروازہ کھٹکھایا۔لیکن شہناز کے پاس کاغذات مکمل ہونے کی وجہ سے۔ زاہدہ مقدمہ ہار گئی۔ زاہدہ اور اس کا شوہر اوچھے ہتکنڈوں پر اتر آئے۔مقامی پولیس کو پیسے دیکر شہناز کو بہت تنگ کیا یہاں تک کہ وہ اکیلی اور مجبور عورت نے مکان بیچ کر آدھی رقم باجی زاہدہ اور اس کے لالچی شوہر کو دے دی۔ ابھی امتحان باقی تھے۔ اک دن جس گھر میں وہ رہ رہی تھی جو شوہر کی ملکیت تھی اس کے دیور آگئے اور مکان میں حصہ داری کا دعوی کرنے لگے۔ شہناز کو رہ رہ کر شوہر کی یاد آنے لگی بے روز گار تھا۔دل کا مریض تھا مگر ایک مضبوط سہارا بھی تھا۔اس کے جانے کی دیر تھی سب کتا صفت لوگ کھل کر اپنی خصلت دکھانے لگے۔ مجبورا اپنے گھر سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ معاشرے میں حوس پرست مردوں سے خود کو اور بیٹی کو بچانا۔بیٹے کی مستقبل کی فکر۔ زندگی ایسے ہی گزرنی تھی۔ کیا سبق حاصل ہوا۔ پڑھ کےمجھے ضرور بتائیے گا ختم شد
