مرد چاہتے ہیں کہ عورت شادی کے بعد اپنے میکے کا خیال دل سے نکال دے۔ انکے بارے میں سوچنا چھوڑدے، انکے پاس کم کم جایا کرے۔ انکی طرفداری یا ہمدردی نہ کرے۔ ان سے دکھ درد بانٹنا چھوڑدے۔ بیوی صرف انکی بن کر رہے اور انکے گھر والوں کی خدمت گزاری کرے۔ اکثر تو بیمار والدین کی عیادت سے بھی روک دیتے ہیں۔
پھر کچھ عورتیں ہیں کہ انکو شوہر کا اپنی والدہ کے پاس بیٹھنا، بھائ بہنوں سے ہنسنا بولنا، انکو تحفے تحائف دینا سخت ناگوار گزرتا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ شوہر صرف انکا ہوکر رہے۔ شوہر کا وقت اور مال صرف اور صرف انکا ہو۔
کیا جن والدین نے پالا، جن بہن بھائیوں کے ساتھ انسان پلا بڑھا وہ نکاح کے رشتے کے ساتھ یکسر ختم ہوسکتے ہیں کہ اب نئے رشتے قائم ہوگئے تو پرانے رشتوں کو پس پشت ڈال دو!
کیا ایسی توقع کرنا خود غرضی نہیں!
کیا یہ مطالبہ معاشرے کے تانے بانے کو تار تار کرنے کے مترادف نہیں!
کیا اسطرح محبت کے نام پر کسی کو باندھ کر رکھا جاسکتا ہے؟
کیا ایک محبت دوسری تمام محبتوں کو مانع کردیتی ہے؟
کیا یہ مطالبہ خود انسان کی نفسیات کے خلاف نہیں ؟
پھر کیوں ہم ایسی ناجائز توقعات سے خود اپنے آپ کو اور شریک حیات دونوں کو اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں؟