Home / آرٹیکلز / شہہ مات

شہہ مات

اس نے پہلی بار مہر ماہ عالم کو ایک فیشن شو میں دیکھا۔ ”مہر ماہ عالم“ کا نام پکارے جانے کے بعد اچانک پس منظر میں چلتی موسیقی، لائم لائٹ اور پھر یکے بعد دیگر تمام سپاٹ لائٹس بند ہو گئیں۔ چند ساعتیں اسی خاموشی میں سرک گئیں تو موسیقی کے دھمبے سر پھر سے سنائی دینے لگے اور اسی اثناء میں ہال پھر سے دودھیا روشنی میں نہا گیا اور ریمپ پر ایک سراپا نمودار ہوا۔ سیاہ ساڑھی پر جگمگاتے، نگاہوں کو خیرہ کرتے سفید موتی، بالوں کا اونچا جوڑا بنا ہوا تھا اور چند لٹیں گھنگریالی کر کے آگے کو ڈالی ہوئی تھیں یوں کہ وہ چہرہ کے گرد ایک حصار بنائے ہوئے ہلکورے کھا رہی تھیں۔ دودھیا رنگت، دراز قد، تیکھے نقوش، کاجل سے دھکتی سرمئی آنکھیں۔ وہ غرور، تنفر، تمکنت اور وقار کے ساتھ چلتی ہر شخص کو سحرزدہ کر رہی تھی۔ اسکے سہج سہج کر ریمپ اینڈ کی طرف بڑھتے قدم فیشن جرنلٹس کے ہاتھوں آگے پیچھے کی تمام ماڈلز کا فیصلہ کر رہے تھے۔ فوٹو گرافرز ہر زاویہ سے دھڑا دھڑ اسکی تصاویر اتار رہے تھے اور وہ ایک دلفریب مسکراہٹ اچھالتی بیک سٹیج کی طرف مڑ گئی۔ شہریار آغا کا یہ طلسم اس وقت ٹوٹا جب ریمپ پر اگلی ماڈل کا نام پکارا گیا۔ کئی فیشن جرنلٹس اور فیشن ڈیزائنرز اور برینڈ اونرز اسکے پیچھے بیک سٹکج کی طرف لپکے جنہیں گارڈ روکتا رہا مگر گارڈ کو حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب اس نے پاکستان کے بلند پایہ بیوروکریٹ شہریار عالم کو بیک سٹیج آتے دیکھا۔ گارڈ فوراً راستے سے ہٹ گیا اور شہریار کی فوراً بیک سٹیج پر مہر ماہ پر نظر پڑ گئی جو ڈیزائنر سے گال سے گال مَس کر کے مل رہی تھی اور میک آرٹسٹ اسکے شانے تھپتھپاتا اسے مبارکباد دے رہا تھا۔ مہر ماہ نے میک آرٹسٹ سے کچھ دیر آرام کی مہلت لی اور ڈریسنگ روم میں جا کر دروازہ مقفل کر دیا۔ دروازہ بند ہونے کی وجہ سے کمرہ میں اندھیرا چھا گیا اور باہر کی روشنی کھڑکی سے سر ٹکرا کر باہر کے منظر کو دھندلا رہی تھی۔ وہ اندھیرے میں کھڑی دھندلکوں میں روشنی ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ سوئچ بورڈ کو ٹٹولتی رہی تو کمرہ روشن ہو گیا۔ اس نے بالوں کے اونچے جوڑے سے پن کو نوچ کر نکالا تو لمبے بال بل کھاتے ہوئے کسی آبشار کی طرح کمر پر گر گئے۔ اس نے چند لٹیں جبین پر ڈالیں اور کچھ شانے پر یوں جیسے وہ کسی ماتم کے لیے تیار ہو۔

​کمرہ کی چاروں دیواروں پر قطار در قطار لگے آئینوں میں اس کا سراپا منعکس تھا۔

​عکس در عکس، فسوں در فسوں

​وہ چند ثانیے آئینے کو دیکھتی رہی پھر آئینے پر دونوں ہاتھ پھیرنے لگی یوں جیسے وہ اس عکس پر ثبت کرب کی داستان کو محسوس کرنا چاہتی ہو۔

​مہر ماہ عالم….. سیدہ مہر ماہ عالم

​اسکے نام کے حروف اسکے لبوں سے ٹوٹ کر ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ اس نے ان اڑتے حروف کا تعاقب کرنا چاہا تو وہ اتنے دور چلے گئے کہ ان کے تعاقب میں کئی بہاریں امر ہو گئیں۔

​اسکی آنکھوں میں وحشت رقم تھی۔ وہ دیوانگی سے آنسوؤں اور سسکیوں کے درمیان ڈیزائنر کے کچھ دیر پہلے کہے گئے الفاظ دہرانے لگی جو اس نے ستائش سے اپنی ڈیزائن کو اسکے سراپے پر جچتا دیکھ کر کہے تھے۔

​مہر ماہ عالم……. ڈیزائنرز ڈیلائیٹ (delight)

​دروازہ پر دستک سے اس کا یہ طلسم ٹوٹا۔ وہ جیسے کسی سمندر میں غوطہ زن تھی اور کسی تموج نے اسے ساحل پر پٹخ دیا۔ وہ فوراً بالوں پر برش پھیرنے لگی پھر کلینر سے آنکھیں صاف کیں جن میں کاجل رونے کی وجہ سے بہہ گیا تھا۔ اس نے مڑ کر مقفل دروازہ کو کھولا تو اسسٹنٹ کھڑا تھا جس کے عقب میں اس نے شہریار آغا کو دیکھا۔

​سیاہ تھری پیس ڈنر سوٹ، سلک کی ٹائی پر ڈائمنڈ کی ٹائی پن، برانڈڈکف لنکس، وجیہہ نقوش اور جسامت، دراز قد اور شخصیت میں بے پناہ وقار اور ٹھہراؤ۔

​اسسٹنٹ، شہریار سے بیک سٹیج میں لوگوں کی تصاویر کی فرمائشوں کی معذرت کرتا رہا مگر مہر ماہ جیسے ماضی کی بھیانک بازگشت میں کھو گئی۔

​”بی بی۔ یہ پاکستان ہے۔ جائیداد تو کھو ہی دی ہے، اب عدالتوں میں عزت بھی کھو دو گی۔“

​”چلیں مس مہر ماہ! میرا آپکو یہ چیلنج ہے۔ آپ اپنی جائیداد واپس لے کر دکھائیں میری آنے والی نسلوں میں بھی کوئی سیاست نہیں کریگا۔“

​”آواز کون سنے گا؟ میڈیا سنے گا؟ میڈیا بھی ہمارا ہے۔ ابھی میرے سامنے کوئی ماڈرن لڑکی بیٹھی ہوتی تو میں اس سے ڈرتا کہ کہیں یہ کسی میڈیا پرسن کو چارم کر کے میرا سکینڈل نہ لیک کر دے مگر کہاں تم۔“

​”تم جیسی لڑکیاں سات پردوں میں کسی جامعہ القرآن میں اچھی لگتی۔ ہمارے سامنے بات کرتے ہوئے نہیں۔“

​اس نے اس بازگشت کو روکنا چاہا تو وہ آوازیں روکنے میں تو کامیاب ہو گئی مگر بصارت کے آگے کئی چہرہ آنے لگے۔ اس نے پہلے خود کو اپنے تایا کے گھر پایا، پھر وزیر خزانہ کے آفس، کبھی سفارتخانہ میں تو کبھی نیب آفس کے باہر۔ زمان و مکاں کی حدود آپس میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔ سب چہرے شہریار کے چہرے سے مل رہے تھے۔ اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ جب دوبارہ پلکیں اُٹھائیں تو اسے صرف شہریار کا وجیہہ اور خوبصورت چہرہ نظر آیا۔ اور بدلتے محل وقوع بھی ڈریسنگ روم پر آ کے ساکت ہو گیا۔

​شہریار کچھ دیر مبہوت ہو کر اس کا جائزہ لیتا رہا پھر وہ اس کو نظروں میں جذب کرتے ہوئے گویا ہوا۔

​”کیسی ہیں آپ مس مہر ماہ؟“

​”بہت اچھی ہوں“ اسکے لہجے میں سرد مہری در آئی۔

​”بہت گرومڈ ماڈل ہیں آپ۔ مجھے یقین ہے بہت جلد اس فیشن انڈسٹری تو کیا پورے میڈیا پر آپکا امپائر ہو گا۔“

​اور وہ اس سے زیادہ سن نہ سکی۔ کہاں کسی نے اسکا چہرہ تک نہ دیکھا تھا۔ امیر خاندان سے تعلق رکھنے کے اپنے شاہانہ زعم میں بھی کبھی وہ بے پردہ کسی نامحرم کے سامنے نہ آئی اور آج نامحرم اس کے حسن کو ستائش کی نظر سے دیکھتے۔ وہ اتنی ارزاں ہو گئی کہ اسکے حُسن کی تعریف بے دریغ اسکے سامنے کرتے۔

​اس نے اپنا رخ آئینے کی طرف کر لیا اور بالوں پر برش پھیرنے لگی۔ شہریار نے اسکی سرد مہری کا اثر قبول کیے بغیر دوبارہ استفسار کیا۔

​”آگے کا کیا ارادہ ہے آپکا۔“

​مہر ماہ ایڑی کے بل گھومی اور کمال اعتماد سے شہریار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔

​”آپ سمیت ہر اعلیٰ عہدہ پر فائز شخص کو اسکے خاندان سمیت سڑکوں پر گھسیٹنے کا ارادہ ہے۔“

​شہریار کے رنگ مغتیر ہو گئے وہ بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا پھر اس بے یقینی کی جگہ شدید طیش نے لے لی۔

​”دو ٹکے کی تھرڈ کلاس ماڈل۔ تم نے سمجھ کیا لیا خود کو“

​وہ شدید غصہ میں الفاظ چبا چبا کر بولا۔

​”دو ٹکے کی نہیں ”تھی“ اب تم لوگوں نے کر دیا ”ہے۔“

​اسکی سرمئی آنکھوں میں ابلتے آنسو بہنے کے لیے بے تاب ہو رہے تھے۔ اس نے آنسوؤں کو پینے کی کوشش کی تو گلا رندھ گیا۔ وہ آگے بھی بولنا چاہتی تھی مگر الفاظ حلق میں ہی دم توڑ گئے اور آنسوؤں کا سیلاب رواں ہو گیا۔ زندگی انھیں دو انتہاؤں میں بٹی ہوئی تھی۔ پہلے بھی آواز اٹھانے اور آنکھوں کے برسات کرنے میں اس نے آنکھوں کی برسات کا انتخاب کیا تھا۔ آنسو بہانے میں دقت نہیں ہوتی۔ یہ بہتے ہیں، خشک ہو جاتے ہیں اور بالآخر تھم جاتے ہیں مگر آواز اٹھانی پڑ جائے تو بعض دفعہ اسکا خمیازہ نسلیں ادا کرتی ہیں۔ وہ ان دو انتہاؤں میں معلق ہوئی تو اس نےجو تیسرا انتخاب کیا اور وہ ”انتقام“ کا تھا۔

​”میں عالم گروپ آف انڈسٹریز کی وارث ہوں۔ جس پر تم لوگوں نے قبضہ کر لیا۔“

​”عالم گروپ آف انڈسٹریز“ وہ حیرانی سے زیرِ لب بڑبڑایا۔

​”بھول کیسے سکتے ہو تم لوگ۔ ساری عمر بھی کرپشن کرتے رہتے تو اتنا نہیں کما سکتے جتنا اس ایک کیس میں لیا تھا۔“

​شہریار واقعی نہیں بھولا تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ فواد کاردار نے نیب میں کیس کے کھلنے سے پہلے ہی بزنس کا نیب کو دکھانے کے لیے دبوالیہ کروایا تھا اور پھر نیب آرڈر کے اگلے ہفتے ہی تمام شیئرز اپنی پرانی قمیت سے اٹھنا شروع ہو گئے جسکو فواد کاردار نے اپنی ذاتی محنت کا نتیجہ قرار دے کر سب انڈسٹریز پر قبضہ کر لیا۔ اور تمام پارٹی اور اس جیسے بیوروکریٹس کو شیئر ہولڈر بنا کر خاموش کر دیا گیا۔

​”ایسا کیوں کیا تم لوگوں نے۔ خدا ہو کیا تم لوگ؟ جسکی چاہے زندگی اجاڑ دو۔ وارث اللہ نے بنائے ہیں۔ تم لوگ کیوں اللہ کے قانون میں دخل دیتے ہو۔“

​اور شہریار واقعتاً شرمندہ ہو گیا پہلی بار… پہلی بار اسے یوں خوف آیا کہ وہ کانپ کر رہ گیا مگر انجان بننا اسے مناسب لگا۔

​”عالم صاحب نے آپ کو اٹارنی ان فیکٹ بنایا تھا۔“

​”ہاں بنایا تھا۔ اپنی موت سے پہلے ہر چیز مجھے دے دی۔ بس تم ظالموں کا سامنہ کرنے کی ہمت نہیں دی۔“

​شہریار کو لگا اسکی زبان لنگ ہو گئی۔ وہ کبھی کچھ بول بھی نہیں پائے گا وہ نگاہیں چراتا دروازہ کی طرف مڑا اور دروازہ کھولنے کے لیے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر اس نے ایک بار مڑ کر مہر ماہ کو دیکھا جو خالی خالی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ شہریار دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ راہ گزر پر چلتے ہوئے اسکے قدموں میں زمانوں کی تھکاوٹ وہ خالی الذہنی کے عالم میں زینے پھلانگنے لگا۔ پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے روش پر چلنے لگا۔ اب کی بار اسکے قدموں میں ایسی سبک رفتاری آئی جیسے اس نے کسی منزل تعین کر لیا ہو۔

​وہ باہر نکلا تو مستعدی اہلکار فوراً پولیس موبائل میں بیٹھ گئے اور ڈرائیور نے اتر کر اسکے لیے دروازہ کھولا، وہ بیک سیٹ پر بیٹھ گیا اور اسسٹنٹ فرنٹ سیٹ پر۔ اس نے اسسٹنٹ کو وزیر خزانہ فواد کاردار سے اپائنٹمنٹ لینے کا حکم صادر فرمایا۔ اسسٹنٹ اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور اپائنٹمنٹ فوراً مل گیا۔ گاڑی زن سے ہائی وے میں دوڑتی رہی اور شہریار نے بھیک مانگتے بچوں، عورتوں پر پہلی بار بغور مشاہدہ کیا۔ آج اس کا اپنی مشکوک اور حلال و حرام کی آمیزش شدہ مال سے کسی کو بھیک دینے کا دل نہ کیا تو اس نے ڈرائیور سےبھیک دینے کا کہا۔ اسے اسسٹنٹ کی کمائی بھی مشکوک لگی۔

​وہ آفس پہنچا تو فواد کاردار کا مودب سا اسسٹنٹ احتراماً کھڑا ہو گیا۔

​”Your boss inside?” اس نے استفسار کیا۔ ”جی سر! وہ آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں۔ شہریار نے دروازہ پر دستک دے کر اندر جھانکا تو فواد کاردار مسکراتے ہوئے مصافحہ کے لیے کھڑے ہوئے۔ ”لونگ ٹائم شہریار“ وہ مسکراتے ہوئے مصافحہ کرنے کے لیے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولے۔

​”لونگ ٹائم مسٹر کاردار“ وہ بمشکل بول پایا۔

​”کیسے ہو؟ بیٹھو! کیسے آنا ہوا۔“ وہ انٹر کام پر چائے اور دیگر لوازمات لانے کا حکم صادر فرماتے ہوئے بولے ”آپ سے عالم گروپ آف انڈسٹریز کے بارے میں بات کرنی تھی۔“

​اور فواد کاردار کی رنگت فق ہو گئی۔ وہ بمشکل اپنے جذبات کو قابو پاتے ہوئے گویا ہوئے۔

​”کیا…. ہاں ہاں۔ بولو“

​”میں چاہتا ہوں یہ کیس ری فائل ہو جائے۔“

​”کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انڈسٹریز تو قومی خزانے کو سپرد کر دی گئی ہیں۔“

​یہی تو مسئلہ ہے۔ وارث ہوتے ہوئے بھی قومی خزانہ کے سپرد کیوں کی گئی۔ فواد کاردار نے موبائل نکال کر نمبر ملانا شروع کر دیا۔ ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ کس قدر مشکل میں ہے۔ فون پر مختصراً۔۔۔ سارا مدعا بیان کر کے کال رکھتے ہی کہا

​”یہ وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔ میرا نہیں خیال اس کیس کو ری فائل ہونا چاہیے۔“

​”اب آپکے ساتھ اور کس کا خیال ہے یہ؟“ شہریار کا اشارہ اس فون کال کی طرف تھا۔

​”بزنس کا دیوالیہ ہو گیا تھا۔ ہماری محنت سے دوبارہ اسٹیبلش ہوا ہے۔“

​”دیوالیہ ہو گیا تھا یا آپ نے نیب کو دکھانے کے لیے کیا۔“ شہریار ترکی بہ ترکی جواب دیتا رہا۔

​”صرف انڈسٹریز میری کسٹڈی میں ہیں۔ شیئرز قومی خزانہ کے ہیں۔“

​”یہ آپ کے خاندان والوں کا نام قومی خزانہ کب سے ہو گیا۔“ وہ استہزائیہ انداز میں مسکراتے ہوئے بولا۔

​”بہت سن لی میں نے تمہاری بکواس۔“ وہ شدید طیش میں بولے ”مجھ پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں ہے۔ تم کل کے لڑکے اپنی کرسی بچاؤ اور یاد رکھنا میں تخت کو تختہ بنا دیتا ہوں۔“

​”بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کی کمینگی کا مجھے اچھے سے اندازہ ہے۔ مگر یاد رکھیں میں بھی کرسی کو پاتال بنا دیتا ہوں۔“

​آدھی سیاست پر کاردار خاندان قابض تھا تو باقی آدھی سیاست اور پوری بیوروکریسی پر آغا خاندان۔ اسی لیے فواد کاردار کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجنے لگی اور اسکے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔

​اسی اثناء میں دروازہ سے ملازم داخل ہوا جسکے ہاتھ میں چائے اور دیگر لوازمات سے بھری ایک ٹرے تھی۔

​”واپس لے جاؤ۔ میں نے کھانا نہیں ہے اور اب کاردار صاحب سے کھایا نہیں جائیگا۔“ جاتے ہوئے اس نے ایک استہزائیہ مسکراہٹ گم صم بیٹھے کاردار کے سفید پڑتے چہرہ پر ڈالی اور کمرہ سے باہر نکل گیا۔

​وہ ساری رات بے چینی سے پہلو بدلتا رہا اور دوسری طرف مہر ماہ نے اپنی سکون آور ادویات کی خوراک دوگنی کر دی مگر سکون آور دوا بھی اسے سکون بخشنے میں ناکام تھی۔ دونوں میں مشترک احساس ”حرام مال کمانے“ کا پچھتاوا تھا مگر شہریار کے اصطراب کی وجہ صرف پچھتاوا تھا جبکہ مہر ماہ میں بھڑکتی انتقام کی آگ اسے پل پل مار رہی تھی۔ آغا خاندان پاکستان ”کا“ نہیں کھاتا تھا یہ پاکستان ”کو“ کھاتا تھا یوں شہریار کو ایسے خاندان سے منسلک ہو نے پر بھی شرمندگی تھی اور مہر ماہ کو ایسی انڈسٹری سے منسلک ہونے پر جس نے دنیا کی ارزاں ترین شے، ریمپ پر چلتی ایک ماڈل کو بنا دیا۔

​شہریار صبح بستر سے اٹھا تو اپنی سرخ، متورم، سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رہ گیا۔ شدید سر درد اسے جانے سے قاصر کر رہا تھا مگر آج جانا بہت ضروری تھا۔ آج ”شہ مات“ کا دن تھا۔

مہر ماہ علی الصبح بستر سے اٹھی۔ وہ نائٹی میں ملبوس تھی تو لباس تبدیل کیے بغیر ایک بڑی سی سیاہ چادر میں خود کو لپیٹ کر باہر نکل آئی۔ وہ بے مقصد اپنے سیکٹر کی سڑکوں پر پھرتی رہی اور پھر مرکزی شاہراہ پر آ گئی۔ ابھی فجر کی آذان میں وقت تھا اور سٹریٹ لائٹس، بارش سے گیلی سرمئی سڑکوں کو روشن کر رہی تھی۔ آج کل وہ ایک مارننگ شو ہوسٹ کر رہی تھی اور اسکی شہرت کو تو جیسے پر لگ گئے تھے۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں ٹہلتی رہی جب اسکی نظر ایک قد آور بورڈ پر پڑی جس پر ایک بیوٹی کریم کا اشتہار آویزاں تھا۔ اور ساتھ ہی اس کا متبسم چہرہ کلوزاپ کر کے دکھایا گیا۔ اس اشتہار کے لیے اس نے چند ہفتے پہلے کام کیا تھا۔

​”مدد کر دے بچہ“ یہ آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی تو اُس نے ادھر ادھر دیکھا اور فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک فقیر پر نظر پڑ گئی۔

​”بابا اپنی کمائی سے مدد کرونگی تو حشر میں اپنے ساتھ آپکو بھی جہنم میں ساتھ لے جاؤنگی۔“

​”کیوں حرام کماتی ہے؟“

​”ہاں“ اسکی نظر بورڈ پر اپنے چہرہ پر ساکت ہو گئی۔

​”نہ بچہ۔ بیٹھ ادھر، مانگ کے کھا لے معتبر رہے گی۔ لیکن حرام نہ کما۔“

​”مانگنا مشکل لگا تھا۔ کوئی سنتا ہی نہیں تھا۔ بڑا ظلم ہوا مجھ پر۔“

​مہر ماہ کی نظروں کے تعاقب میں برزگ نے بھی بورڈ دیکھا۔

​”بڑا ظلم کیا تو نے خود پر۔“ دونوں کی نظریں بورڈ پر تھیں۔

​”مانگتی تو سہی….. کیسے نہ دیتا۔“

​”یہاں سب تماشائی ہیں بابا۔ میں نے تماشا بن کر دیکھا ہے۔“ اسکی آواز میں بے پناہ اداسی در آئی۔

​”اللہ کی بات کر رہا ہوں بچہ۔ اس سے مانگتی۔ وہ تماشا نہ بننے دیتا۔“

​”ساری زندگی اسی ایمان پر گزاری تھی بابا۔ حیا کے ساتھ عصمت کے ساتھ۔ ایمان اور یقین کے ساتھ۔ لیکن آخر میں کیا ملا؟ سب لا حاصل رہا۔“

​”مال اس ن واپس لے لیا تو حیا تُو نے خود کھو دی۔ لا حاصل کو تو انگلیوں کی پوروں سے گن سکتی تھی۔ حاصل کی گنتی میں تیری سات عمریں لگ جاتیں۔“

​وہ چلنے کے لیے کھڑی ہوئی۔ اب مزید وہ نہیں سن سکتی تھی۔ اس نے ایک قدم اٹھایا تو راستے میں پتھر آ گیا۔ وہ سر کے بل نیچے گری۔

​ناک اور ہونٹ سے خون رسنے لگا مگر اس بار گر کر اٹھنا نہیں چاہتی تھی۔

​”انتقام کس سے لے رہی ہے تو لوگوں سے، نہیں۔ تو خود سے، اللہ سے انتقام لے رہی ہے۔“

​یہ بے ربط الفاظ بھی اسکو حرف بہ حرف سمجھ آ رہے تھے۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے ٹانگوں کے گرد ایک حصار بنایا اور سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

​”جس کا جہاں بس چلتا ہے وہ وہاں کا خدا بننے کی کوشش کرتا ہے، کوئی ملک کا تو کوئی اپنی ذات کا۔ خدائے باری تعالیٰ کو تو سب فراموش کر بیٹھے ہیں۔“

​پرندے اپنے آشیانوں سے نکل کر نئی پرواز کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ سب کا رزق تقسیم ہو گیا تھا۔ انھیں بس رزق کی تلاش کرنی تھی۔

​”تو نے خدا کو مال کے لیے آزمایا، اس نے تجھے انتقام کی طاقت کے لیے۔ دولت اس نے لی۔ حیا سے تو خود دستبردار ہو گئی۔ بدلہ تو نے کہاں چھوڑا۔“

​اسے روتا دیکھ کر بھی بزرگ چپ نہ ہوا۔ اسی اثناء میں آذان کی آواز آنے لگی۔

​اللہ اکبر اللہ اکبر

​آج سب دلیلیں تم توڑ گئیں۔ وہ اپنی جن سوچوں سے ضمیر کو سلانے کی کوشش کرتی وہ سب مر گئی تھیں۔ اور آج ایسا فرقان عطا ہوا کہ ​سحر سے بل کھاتی رسیاں اور معجزہ سےعصا کا اژدھا بننا۔ سب ظاہر ہو گیا۔

​وہ کچھ دیر یونہی روتی رہی پھر چادر سے ہونٹوں اور ناک سے ٹپکتے خون کے قطرہ صاف کیے پھر آنسو صاف کیے اور سسکیاں روک کر کھڑی ہوئی۔

​”حییٰ الفلاح…. حییٰ الفلاح“ (آؤ فلاح کی طرف)

​آذان اب بھی جاری تھی۔

​ایک عہد تھا جو اس نے ابھرتے سورج کو گواہ بنا کر خود سے کیا تھا۔

شہریار نے کیس کا مطالعہ شروع کیا تو کئی دل دہلا دینے والے انکشافات سامنے آئے۔ کیس کی وکالت کے لیے پاکستان کے بلند پایہ ایڈوکیٹ کے ساتھ شہریار کی بات ہوئی جس نے مطالعہ کے بعد اس بات کا یقین دلایا کہ ایسا کیس کورٹ کی پہلی پیشی میں ختم ہو جائیگا چونکہ مکمل وراثت مہر ماہ کی تھی اور فواد کاردار نے صرف طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کر کے انڈسٹریز پر قبضہ کیا تھا۔ کیس شروع ہونے سے پہلے شہریار نے شطرنج کی چند چالیں کھیلیں۔ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے شہریار نے فواد کاردار کا ناقابل ضمانت گرفتاری کا وارنٹ جاری کروایا۔ سوشل میڈیا میں فواد کاردار کو ہتھکڑی لگاتے ہوئے بنائی جانے والی ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ میڈیا نے ریٹنگ کی خاطر اسکے ”ایک سکینڈل“ کو ”دس“ کہہ کر پیش کیا۔ فواد کاردار کی پارٹی میں چیئرمین کی حیثیت کو منسوخ کر دیا گیا اور وزیر اعظم نے فواد کاردار سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ ہاؤسنگ سکیمز اور رائس فلور ملز سمیت تمام انڈسٹریز نے شیئر ہولڈرز کے شیئر بیچ دیے۔ تین دن یونہی ارب ڈالر ڈوبتے گئے اور بالآخر دیوالیہ ہو گیا۔ شہریار کے وکیل نے مہرماہ سے رابطہ کرنے کے بجائے مہرماہ کے وکیل سے رابطہ کیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر کورٹ کا فیصلہ بھی آ گیا۔

​مہرماہ ان تمام معاملات سے بالکل بے خبر تھی کیونکہ ان دنوں وہ اپنے کانٹریکٹ کے ایڈوانس واپس کرنے اور چینلز میں استعفیٰ دینے دبئی گئی ہوئی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد وہ پاکستان آئی جہاں اس نے ایک سکول میں پڑھانے کے لیے اپنی سی وی بھیجی۔ وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھی تو اسی پل بریکنگ نیوز آئی۔

​”فواد کاردار سکینڈل کیس میں چیف جسٹس کا فیصلہ عالم گروپ آف انڈسٹریز دوبارہ مہرماہ عالم کے نام منتقل کرنے کا فیصلہ آ گیا۔ مہرماہ عالم کے وکیل نے اس خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ کیس کے سربراہ شہریار اور مہرماہ کے وکیل کچھ دیر بعد پریس کانفرنس کرینگے۔

​مہرماہ دم بخود سی ٹی وی دیکھتی رہی۔ پھر بے خودی کے عالم میں کھڑی ہوئی اور وفذرِ انبساط میں دوڑتی وہ مرکزی دروازہ تک آئی۔ اس نے کواڑ کھولی تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے نتھنوں کو چھوا۔ نیوز چینل سے اب ایک غزل کے اشعار فضاؤں میں بکھر رہے تھے۔ وہ بے خودی میں ٹی وی کی آواز ”سو“ (100) پر چھوڑ آئی تھی۔

​؎​کسی کی آنکھ پر نم ہے، محبت ہو گئی ہو گی

​​زباں پر قصہ غم ہے، محبت ہو گئی ہو گی

​وہ آج ماضی کے جھروکوں میں ہرگز جھانکنا نہیں چاہتی تھی۔ دو بادل آپس میں ٹکرائے تو زوردار آواز آئی اور بارش برسنے لگی۔ پھواریں گردوپیش کو حسن بخش رہی تھیں۔ ایک سیاہ اکارڈ گیٹ سے اندر داخل ہوئی جس میں شہریار ڈرائیو کر رہا تھا۔ مہرماہ کی آنکھوں میں رقم ”شہریار“ کے انتظار کو معمر چوکیدار نے پڑھ لیا اور مسکراتے ہوئے گیٹ کھولنے لگا۔

​؎​کبھی ہنسنا، کبھی رونا، کبھی ہنس ہنس کے رو دینا

​​عجب دل کا یہ عالم ہے، محبت ہو گئی ہو گی

​وہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے اس کی طرف ہاتھ ہلانے لگا۔ مہرماہ اب بھی مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔

​؎​کسی کو سامنے پا کر، کسی کے سرخ ہونٹوں پر

​​انوکھا سا تبسم ہے، محبت ہو گئی ہو گی

​وہ گاڑی سے اتر کر اسکے قریب آیا۔ مہرماہ کی مسکراہٹ

اور گہری ہو گئی۔ ایش گرے تھری پیس سوٹ میں وہ ہمیشہ کی طرح وجیہہ اور جاذبِ نظر لگ رہا تھا۔

​؎​کہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں، وہ باتوں کا بتا دینا

​​کہیں تکرار برھم ہے، محبت ہو گئی ہو گی

​وہ اتنا قریب کھڑا تھا کہ اسکے عقب میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ دونوں خاموش کھڑے تھے مگر ان کی خاموشی میں گفتگو تھی۔ وہ نئے خوابوں کے نگر میں تھے، وہ نئے سپنوں ​کی راہ گزر میں تھے۔ کچھ دیر یونہی انکی آنکھیں محوِ گفتگو رہیں پھر مہرماہ لاہنی پلکیں جھکا کر مسکرائی۔

​؎​جہاں ویران راہیں تھیں، جہاں حیران آنکھیں تھیں

​​وہاں پھولوں کا موسم ہے، محبت ہو گئی ہو گی

ختم شد

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *