Home / آرٹیکلز / یوسف بن تاشفین

یوسف بن تاشفین

یوسف بن تاشفین مراکش کے جنوب میں صحرائی علاقے کارہنے والا تھا جس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے صحرائے اعظم اور اس کے جنوب میں خاندان مرابطین کی حکومت قائم کی اور بعد ازاں اسے اسپین تک پھیلادیا۔۔
یوسف بن تاشفین مراکش کے جنوب میں صحرائی علاقے کارہنے والا تھا جس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے صحرائے اعظم اور اس کے جنوب میں خاندان مرابطین کی حکومت قائم کی اور بعد ازاں اسے اسپین تک پھیلادیا۔ اس نے صحرائے اعظم میں رہنے والے نیم وحشی اور حبشی باشندوں سے کئی سال تک لڑائیاں کیں اور اپنی حکومت دریائے سینی گال تک بڑھادی تھی۔ یہ لوگ ان قبائل کے خلاف جہاد ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان میں اسلام کی تبلیغ بھی کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے بے شمار بربروں اور حبشیوں کو مسلمان بنایا۔ تبلیغ کا یہ کام یوسف کے چچا عبداللہ بن یٰسین کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے دریائے سینی گال کے ایک جزیرے میں ایک خانقاہ بنائی تھی۔

شہر مراکش کی بنیاد

شروع میں یوسف بن تاشفین اس کام میں اپنے چچا کے ساتھ تھا لیکن بعد میں یوسف شمال کی طرف آگیا اور یہاں فاس اور دوسرے شہر فتح کرکے کوہ اطلس کے دامن میںواقع شہر مراکش کی بنیاد ڈالی۔ اندلسی مسلمانوں کا وفد یوسف سے امداد لینے کے لئے اسی شہر مراکش میں آیا تھا۔

جنگ زلاقہ

جنگ زلاقہ (23اکتوبر1086ء بمطابق رمضان 476ھ) دولت مرابطین کے عظیم مجاہد رہنما یوسف بن تاشفین اور اسپین کی عیسائی مملکت کے بادشاہ الفانسو ششم کے درمیان لڑی گئی جس میں یوسف بن تاشفین نے تاریخی فتح حاصل کی۔

وجوہات

ہشام ثانی نے اپنے 26 سالہ دور حکومت میں ہسپانیہ میں ابھرتی ہوئی عیسائی ریاستوں کے خلاف 52 مہمات میں حصہ لیا اور کبھی بھی شکست نہیں کھائی لیکن 1002ء اس کے انتقال کے بعد اسپین میں مسلم حکومت کو زوال آگیا اور وہ کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ 1082ء میں الفانسو ششم نے قشتالہ سے اپنی تاریخی فتوحات کے سفر کا آغاز کیا۔ نااہل مسلم حکمرانوں میں اسے روکنے کی ہرگز صلاحیت نہیں تھی۔ 1085ء میں اس نے بنو امیہ کے دور کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ شہر کے عظیم باسیوں نے 5 سال تک عیسائیوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی لیکن بالآخر ہمت ہار بیٹھے۔ الفانسو کا اگلا ہدف سرغوسہ کی کمزور ریاست تھی۔ مسلم حکمرانوں کی نااہلی کے مکمل ادراک کے بعد علماء نے شمال مغربی افریقا میں دولت مرابطین کے امیر یوسف بن تاشفین سے رابطہ کیا اور ان سے اندلس کی ڈوبتی ہوئی مسلم ریاست کو بچانے کا مطالبہ کیا۔

جنگ کی تیاریاں

اشبیلیہ، غرناطہ اور بطليوس (باداجوز) کے قاضیوں نے یوسف سے مطالبہ کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ وہ مقامی حکمرانوں کی خودمختاری برقرار رکھیں گے۔ یوسف نے تمام شرائط تسلیم کیں جس کے بدلے میں انہیں قلعہ قائم کرنے اور اپنی افواج کو منظم کرنے کے لئے ساحلی شہر الجزیرہ سے نوازا گیا۔ انتظامات مکمل کرنے کے بعد یوسف 12 ہزار فوجیوں کے ساتھ اشبیلیہ روانہ ہوا اور الجزیرہ کے قلعے میں 5 ہزار فوجیوں کو چھوڑا۔ وہ 8روز اشبیلیہ میں رہا اور اندلس کے حکمرانوں کی جانب سے فراہم کردہ فوجی دستوں کی ترتیب و تنظیم کرتا رہا۔ کل 20ہزار افواج کے ساتھ یوسف شمال کی جانب روانہ ہوا جہاں اس کا ٹکرائو زلاقہ کے میدان میں الفانسو ششم سے ہوا۔

جنگ

1086ء

قشتالہ کے بادشاہ الفانسو ششم کو 80ہزار شہسواروں، 10ہزار پیادوں اور 30 ہزار کرائے کے عرب فوجیوں کی خدمات حاصل تھیں۔ 20 ہزار مسلم افواج میں سے شامل 12 ہزار بربر (10 ہزار شہسوار اور دو ہزار پیادی) بہترین جنگجو تھے جبکہ مقامی 8 ہزار افواج شہسواروں اور پیادہ افواج پر مشتمل تھے۔ دونوں سپہ سالاروں نے جنگ سے قبل پیغامات کا تبادلہ کیا۔ یوسف نے دشمن کو تین تجاویز پیش کیں: ١۔ اسلام قبول کرو، ٢۔ جزیہ ٣۔ یا جنگ ۔

الفانسو نے مرابطین سے جنگ کو ترجیح دی۔ جنگ 23 اکتوبر1086ء بروز جمعہ صبح سورج نکلتے وقت الفانسو کے حملے کے ساتھ شروع ہوئی۔ یوسف نے اپنی فوج کو دستوں میں تقسیم کیا پہلے دستے کی قیادت عباد ثالث المعتمد کررہا تھا جبکہ دوسرے دستے کی قیادت خود یوسف بن تاشفین نے کی۔ دوپہر تک المعتمد کی افواج ہی الفانسو کا مقابلہ کرتی رہیں جس کے بعد یوسف بن تاشفین اپنی فوج سمیت جنگ میں داخل ہوا اور الفانسو کی افواج کا گھیرائو کرلیا جس پر عیسائی افواج میں افراتفری پھیل گئی اور یوسف نے سیاہ فام باشندوں پر مشتمل تیسرے دستے کو حملے کا حکم دے دیا جس نے آخری وفیصلہ کن حملہ کرتے ہوئے جنگ کا فیصلہ مسلم افواج کے حق میں کردیا۔ مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 60ہزار کے عیسائی لشکر میں سے 59ہزار 500 اس جنگ میں کام آئے جبکہ الفانسو زندہ بچ گیا تاہم اس کی ایک ٹانگ ضائع ہوگئی۔

اس میدان جنگ کو زلاقہ کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب پھسلتا ہوا میدان ہے کیونکہ معرکے کے روز اس قدر خون بہا کہ افواج کو قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی۔ عیسائی ذرائع اس جنگ کو Battle of Sagrajas کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس تاریخی فتح کے نتیجے میں اگلے 300 سال تک اسپین میں مسلم حکومت موجود رہی بصورت دیگر وہ 1492ء کے بعد 1092ء میں ہی ختم ہوجاتی۔

اس جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کی اہم ترین وجہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں شکست کے بعد ہی عیسائیوں نے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جارحیت کے سلسلے کا آغاز کیا۔

شخصیت اور کارنامے

یوسف بن تاشفین نے 1061ءسے 1107ءتک حکومت کی۔ وہ بڑا نیک اور عادل حکمران تھا،اس کی زندگی بڑی سادہ تھی۔ تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ صحرائے اعظم میں اسلام کی اشاعت اور اندلس میں مسیحی یلغار کو روکنا اس کے بہت بڑے کارنامے ہیں۔ شہر مراکش کی تعمیر بھی قابل فخر کارناموں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس طرح اس نے ایک نیم وحشی علاقے میں دارالحکومت قائم کرکے تہذیب اور علم کی بنیاد ڈالی۔ یوسف نے تقریباً پچاس سال حکومت کی۔ اس کی قائم کی ہوئی سلطنت دولت مرابطین (1061ءتا 1147ء) کہلاتی ہے۔ یوسف کے انتقال کے بعد یہ حکومت مزید 40 سال قائم رہی۔ اس کے بعد جن لوگوں کی حکومت ہوئی وہ موحدین کہلاتے تھے۔

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *