جو اللہ کی پہلی آواز پہ لبیک کہتا ہے، اللہ بھی اسے اول کر دیتاہے۔
سر لیکچر دیتے دیتے یکدم رک گئے، اور اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے :
” سرمیں نماز کےلیےجاناچاہتاہوں ”
سر نے ایک استہزائیہ نگاہ اس کے وجود پر ڈالی، ناگواری سے اس کی جانب دیکھا اور بولے :
” تمہارے لیے کوئی اور نہیں آئے گا یہاں لیکچر دینے ”
وہ بہت آرام سے بولا :
” کوئی بات نہیں سرمیں نوٹس لےلوںگا ”
سر نے مذاق اڑایا اور کہا :
” میرا لیکچر میرے الفاظ ، یہ کلاس کا ماحول کہاں سے لو گے ؟ میرا لیکچر ختم ہونے دو، پھر جتنی نمازیں پڑھنی ہوں پڑھتے رہنا، ساری رات پڑھنا کوئی نہیں روکے گا تمہیں …”
کلاس کی دبی دبی ہنسی ابھرنے لگی ۔
محمد ہشام کا لہجہ قطعی تھا :
” سر مجھے جانا ہے۔ ہمارے لیے نمازوں کو وقت مقرر پر فرض کیا گیا ہے … ”
سر یکدم چیخے :
” گیٹ_آؤٹ ”
” شکریہ_سر ”
اس کا لہجہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔ کسی مشین کی مانند محمد ہشام چل کھڑا ہوا اور کلاس سے نکل گیا، کلاس کو سانپ سونگھ گیا …
سر، محمد کے اس طرح جانے کے بعد بڑبڑارہے تھے :
” مولوی کہیں کا، نہ جانے کہاں سے اٹھ آتے ہیں، اتنا ہی شوق ہے نمازوں کا تو یہاں کیا لینے آیا تھا سٹوپڈ کہیں کا! ”
(دوسرا منظر)
میم میں جاسکتی ہوں ؟
واٹ ؟
میم کین آئی لیو دا کلاس ؟
میم نے تیوری چڑھا کر پوچھا :
” یس_بٹ_وائے ؟ ”
فاطمہ نے متانت سے کہا :
” میم_مجھے_نماز_پڑھنی_ہے ”
میم نے ناگواری سے اس کی جانب دیکھا اور بولیں:
ہم بھی مسلمان ہیں ہم بھی نماز پڑھتے ہیں بعدمیں پڑھ لینا یہ لیکچربعد میں کون سمجھائےگاتمہیں؟
فاطمہ بولی :
” میم_مجھے_بس_پانچ_منٹ_چائیں ”
میم نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا اور تیوری چڑھا کر بورڈ کی جانب متوجہ ہوگئیں :
” اوکے_لیو_دا_کلاس ! ”
(اگلا دن)
کشادہ پیشانی، چوڑا چہرہ، چکمتی آنکھیں، گھنی داڑھی اور ٹخنوں سے اوپر شلوار۔ اس وجود کو پرنسپل کچھ دن قبل بھی دیکھ چکے تھے۔ آج یہ وجود پھر سے ان کے روبرو بیٹھا تھا :
” السلام_علیکم! ”
اکیڈمی کے پرنسپل گھٹن محسوس کررہے تھے، بولے
” وعلیکم_السلام! ”
وہ صاحب گویا ہوئے :
“میرا حسن ظن تھا کہ اگر طلبا نماز کے لیے جانا چاہیں تو انہیں بسر وچشم اجازت دی جاتی ہو گی، مگر یہاں معاملہ خاصا مختلف تھا … ”
پرنسپل نے گلاس میں پانی انڈیلا :
” کیا_کہنا_چاہتے_ہیں_آپ ؟ ”
مولانا فرمانے لگے :
” میرے دو بچے یہاں پڑھتے ہیں۔ انہیں بوقت نماز، کلاس سے جانے کی اجازت دیجئے، انہیں روکا نہ جائے … ”
پرنسپل نے پانی کا گھونٹ بھرا، اور نہایت تحمل سے مولانا کو سادہ الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی :
” دیکھیے مولانا! استاد کا لیکچر بڑا اہم ہوتا ہے، بچہ کا حرج ہوگا۔ وہ اسے پورا نہیں کر سکے گا … ”
مولانا بولے :
” استاد کا لیکچر نہایت اہم ہوتا ہے، اسی لیے اسے اکیڈمی میں بھیجا جاتا ہے، مگر نماز اس سے بھی اہم ہوتی ہے ،اور وقت مقرر پر فرض ہوتی ہے، اور نمازوں کو ضائع کرنے کا نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے … ”
اب پرنسپل کی پیشانی پر بھی شکن ابھر آئی تھی :
” ٹھیک ہے، مگر اسٹڈیز کا نقصان کون پوار کرے گا … ”
مولانا کا لہجہ یقین سے بھرپور تھا :
” وہ رب کرم پورا کروا دے گا، میں اس بات کی ذمہ داری لیتا ہوں! ”
پرنسپل صاحب اب انہیں باہر کی راہ دکھا رہے تھے :
” ٹھیک_ہے_جناب! ”
ایمان مسکان فاطمہ کلاس سے اکیلی ہی نکلتی تھی، اور محمد ہشام بھی روزانہ اکیلا اٹھتا اور فلاح کی پکار پہ لبیک کہتا۔ ابتدا میں سب حیران ہوتے پھر جیسے یہ معمول بن گیا۔ رزلٹ آیا تو فاطمہ ٹاپ کر گئی، وہیں محمد بھی فرسٹ آیا۔ ایک دھوم مچ گئی۔ آج سب بچھے چلے جارہے تھے۔ سب ان کے آگے پیچھے تھے۔ اکیڈمی کی آیا جی نہایت مسرت سے بولیں :
” فاطمہ بیٹا تم روزانہ نماز کے لیے اوپر جاتی تھی، آج اللہ نے تمہیں سب سے اوپر کر دیا ہے … ”
جانے کیا ہوا، اب محمد ہشام نماز کے لیے تنہا نہیں ہوتا، ایک جم غفیر اس کے ہمراہ ہوتا۔ سر کو بریک دینا پڑتی، لڑکے مساجد میں چلے جاتے۔ اور آخر ایک دن سر نے چٹائی منگوالی اور کہا :
” یہیں_جماعت_کروا_لیا_کرو ”
نتیجتاً وہ اکیڈمی جہاں نماز کا مذاق اڑایا جارہا تھا، آج وہاں آذان گونجتی تھی۔ وقت پر لگا کر اڑا، محمد فائٹر پائلٹ بن گیا، اور ایمان مسکان فاطمہ گولڈ میڈلسٹ بن گئی۔ وہی اکیڈمی، وہی لوگ! اکیڈمی کا نام روشن ہو چکا تھا، بڑے بڑے بینرز لگ رہے تھے، داخلوں میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا تھا۔ آج اس کے اعزاز میں بڑی بڑی تقاریب ہورہی تھیں، اور لوگ جان رہے تھے کہ جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول حضرت محمّد مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم کی اطاعت کرنے لگ جاتا ہے، وہ عظیم کامیابی پاتا ہے۔ حقیقی عزت اس کے لیے ہوتی ہے جو دین کو اول پہ رکھتا ہے۔ جو اللہ کی پہلی آواز پہ لبیک کہتا ہے، اللہ بھی اسے اول کر دیتاہے۔