Home / آرٹیکلز / “یتیم بہو لاؤ- نیکی کماؤ-مکمل پیکج”

“یتیم بہو لاؤ- نیکی کماؤ-مکمل پیکج”

کیا ہوا جو “ذرا” زیادہ خرچہ کرنا پڑ رہا ہے۔۔ بیٹی کا بوجھ بھی تو اُتر جائے گا۔۔شہر بھرا پڑا ہے لڑکیوں سے۔۔ مگر وہ اماں کے پاس ہی آئے دستِ سوال لیکر۔۔

باقی اللّٰہ نصیب اچھے کرے!
آج پھر سے بیٹی کے ہونے والے سُسرال سے مہمان آئے بیٹھے تھے۔ اماں نے بھرے پرے خاندان میں بیاہنے کا فیصلہ تو کردیا تھا مگر اب آئے روز کی مہمان داریوں سے وہ بھی تھکنے لگی تھیں۔ اچھا تھا کہ منگنی اور شادی کے بیچ زیادہ وقفہ نہیں تھا ورنہ سالہا سال کیسے ایک بیوہ عورت یہ تمام چونچلے پورے کرتی!

شوہر کے چہلم سے پہلے ہی جیٹھ جٹھانیوں نے ہری جھنڈی دکھا دی تھی کہ اِس مہنگائی کے دور میں چار بچوں کے ساتھ ایک بیوہ کی کفالت کرنا اُن غریبوں کی بساط سے بہت زیادہ ہے۔ اب اس دور میں بھلا اپنے بچوں کے کپڑے لتے کی فکر کریں یا جنت کی اُمید پہ ان یتیموں کا خرچ اُٹھائیں؟

سو اماں اپنا مختصر بوریا بسترا سمیٹ، چاروں بچوں کو لے بھائی کے گھر آ بیٹھیں۔ ماں باپ تو حیات تھے نہیں، سوچا بھائی بھابھی خیال کریں گے۔ لیکن یہاں بھی وہی رونا پیٹنا۔۔ بھابھی نے ایک دن بھی سکون کا سانس نہ لینے دیا۔۔ اب ساری نیکیوں کا ذمہ اُنہوں نے تھوڑی اُٹھا رکھا تھا؟ اماں نے وہی سامان اُٹھایا اور ایک فلاحی ادارے میں آ کر پناہ لی۔۔

بڑی بیٹی کی اُٹھان ہوئی تو اللّٰہ نے فوراً سبب بھی بنا دیا۔۔ اب بیٹی کو بیاہنا تو تھا ہی۔ جیسے ہی رشتہ آیا، اماں نے ہاں کر دی۔ 5 بھائیوں میں آخری لڑکا تھا، ماں باپ تھے نہیں اور گھر والے شریف بچی کی تلاش میں یہاں تک پہنچے تھے۔۔ یہاں رشتہ پکا ہوا، وہاں شادی کی تاریخ بھی تہہ ہو گئی۔۔ اللّٰہ اللّٰہ خیر صلّہ۔

لڑکے والے بڑے اچھے تھےبس اُنکی یہ شرط تھی کہ ہمارے خاندان میں کسی کو معلوم نہ پڑے کہ وہ یوں ایک فلاحی ادارے سے لڑکی لا رہے ہیں۔ سو اماں کو انکے خاندان میں یہ بھرم رکھنا تھا۔ آخر کو یتیم بچی کے سر پہ ہاتھ رکھ رہے تھے۔۔ یہ احسان کم تھوڑی تھا!

سب جٹھانیوں کےمیکے والے بھی تھے، کوئی عزت اور رکھ رکھاؤ تھا۔ اب یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ انکے خاندان بارات کے ساتھ نہ آئیں؟ سو شادی میرج ہال میں ہونا طے پائی۔۔ آخری بھائی کی شادی تھی پھر بارات کم کیسے ہوتی بھلا۔ بس 150 لوگ ہی آنے تھے۔

یوں تو لڑکا سرکاری نوکر تھا اور اللّٰہ کا دیا سب کچھ تھا گھر میں۔۔ پر خاندان می عزت بھی بنا کہ رکھنی پڑتی ہے۔ جہیز کا ضروری سامان تو سب کو دکھانا ہی تھا۔۔ کہ بھابھیوں نے ایسے ہی کسی ٹٹ پونجیوں میں رشتہ نہیں کر دیا۔۔ اب ان سب کی عزتوں کا پاس بھی تو اماں نے ہی رکھنا تھا۔بھابھیاں کیسے سن لیتیں کہ لڑکی خالی ہاتھ ہی اُٹھا لائے۔۔

ادارے والی باجی نے اپنے سب جاننے والوں میں کہلوا بھیجا تھا کہ یتیم بچی کی شادی میں امداد کریں۔ کہیں سے زکٰوۃ، کہیں سے خیرات اکٹھی کر کر کہ جہیز اکٹھا ہو ہی گیا۔ ایک خاتون فرنیچر لے کر آئیں، کچھ نے برتن، کپڑے دئیے۔

اللّٰہ اللّٰہ کر کے جھٹانیوں کے کہنے کے مطابق “چھوٹا موٹا ضروری”سامان پورا ہوا۔۔

اب دس دن میں شادی ہے اور اماں کو ہال کے اخراجات کے لئیے رقم پوری کرنی ہے۔۔ اللوں تللوں سے کچھ رقم اکٹھی کی ہے مگر وہ نا کافی ہے۔۔ ہال والے کونسے ماں جائے ہیں جو لحاظ کریں گے۔۔اماں کو بس در در جا کر منت ہی تو کرنی ہے۔۔یہ انتظام بھی ہو ہی جائے گا۔ لوگ ترس کھا لیتے ہیں یتیموں پر!

کیا ہوا جو “ذرا” زیادہ خرچہ کرنا پڑ رہا ہے۔۔ بیٹی کا بوجھ بھی تو اُتر جائے گا۔۔شہر بھرا پڑا ہے لڑکیوں سے۔۔ مگر وہ اماں کے پاس ہی آئے دستِ سوال لیکر۔۔

باقی اللّٰہ نصیب اچھے کرے!

اُمِ مِنسأ

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *