حافظ صاحب! میں بیٹی کی شادی کر کے پھنس گیا ہوں۔
کیوں؟ کیا ہوا؟ دِتّو کے اس جملے پہ میں چونکا
دِتّو ایک انتہائی شریف اور ہنس مکھ آدمی ہے۔ اس کا تعلق ایک مذہبی ماحول سے ہے۔ ہمیشہ اس کا چہرہ مسکراہٹیں بکھیرتا ہے۔ مگر آج جب وہ آیا تو اس کی آنکھوں میں سیلاب تھا جو رکنے کا نا م نہیں لے رہا تھا۔ آج صبح ہی صبح ملنے چلا آیا۔ میں خو د متفکر تھا کہ آج صبح صبح کیا کام آن پڑا۔ مگر اس جملے سے میں ساری وضاحت جان چکا تھا۔
کہنے لگا، حافظ صاحب! آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارا ایک مذہبی گھرانہ ہے۔ ہماری عورتیں پردہ کرتی ہیں اور ہمارے مردوں کی شلوار ٹخنوں سے اوپر اور نظر نیچی ہوتی ہے۔ میری بیٹی عالمہ ہے۔ اسی ماحول کے پیش نظر میں نے اپنی بیٹی کے لیے ایک دینی گھرانہ تلاش کیا، جہاں سے ہمیں مذہبی طفل تسلیاں دی گئیں۔ پوری فیملی نے دینی لبادہ اوڑھا ہوا تھا۔ جی ہم آپ کی بیٹی کو دینی درس گاہ بنا کر دیں گے۔ ہمیں تو جہیز کی بھی کو ئی ضرورت نہیں۔ ہم آپ پر بالکل بوجھ نہیں بنیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہم اس لبادے کے پیچھے شیطان کو نہ جھانک سکے۔ ہم ان کے اس چکمے میں آچکے تھے۔ دینی لبادہ حافظ بھائی ہوتا ہی ایسا ہے۔ خیر وہاں ہم نے اس کی شادی کردی۔
شادی کے موقع پر کیا بدمزگی ہوئی، یہ ایک الگ قصہ ہے۔ اس نام نہاد دینی خاندان نے ہمیں کتنا ذلیل کیا، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ خیر ہم بیٹی والے تھے بر داشت کر گئے۔ وہ کہتے ہیں نہ ڈنگ ٹپانا۔
میں نے اچانک دتو کے چہرے کی جانب دیکھا کہ ہنس مکھ چہرہ ہنسنا بھول چکا تھا۔ چہرے پہ غصے، تھکان اور پریشانی کی ملی جلی سی کیفیات تھیں۔ آنکھوں سے سیل رواں جاری تھا۔ کیوں نہ ہو بیٹی کا دکھ ہی انسان کے لیے کوہ ہمالیہ جتنا گراں ہوتا ہے۔ بیٹی کا جنازہ اور ڈولی جب گھر سے رخصت ہوتی ہے تو کوہ گراں ٹوٹ ہی پڑتے ہیں۔ آنسوؤں کا سیلاب انسان کو غرق کر ہی دیتا ہے۔ انسان شرم و اضطراب کے عالم میں بات کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ مگر وہ میرے ساتھ اپنے دل کا غبار نکالنے آیا تھا۔ بدقسمت معاشرے کا شکوہ کرنے آیا تھا۔ چند روز قبل ہی اس کی بیٹی پہ قیامت ٹوٹی تھی، اس کے شوہر نے مار پیٹ کر اسے گھر سے نکال دیا تھا، اور دتو اپنی بیٹی کو بچوں سمیت گھر لے آیا تھا۔ دتو کبھی اپنے گھر کی بات باہر نہیں کرتا، مگر آج نہ جانے کیوں وہ چاہتا تھا۔ اپنے دکھوں کا سارا بوجھ میرے کندھے پہ لادنا چاہتا تھا۔
اس نے آنکھوں سے آنسو پونچھے اور کہنے لگا، حافظ بھائی میری ایک ہی بیٹی ہے۔ میں اسے دنیا کی ہر خوشی مہیا کرنا چاہتا ہوں مگر ہر جگہ میرا داماد رستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ میں شادی سے لیکر آج تک بیٹی اور اس کے بچوں کی کفالت کر رہا ہوں۔ اس کے باوجود ہم اور بیٹی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہے۔ داماد ہر کارگردگی میں صفر ہے۔ حتی کہ جو جیب خر چ میں بیٹی کو بھیجتا ہوں، وہ بھی اپنی عیاشی میں اڑا دیتا ہے۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کا مصداق ہے۔ منشیات کا دل دادہ ہے۔گالم گلوچ اس کی فطرت ثانیہ ہے۔ جہیز کی ڈیمانڈ روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ کبھی مجھے یہ چاہیے تو کبھی یہ۔ شادی سے لیکر آج تک کبھی عید پہ بھی مسجد جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اب تو طعن و تشنیع سے بات آگے جا چکی ہے۔ معاملہ اب تو مارپیٹ تک جا پہنچا ہے۔گھر میں توڑ پھوڑ اور مار پیٹ روز کامعمول بن گیا ہے۔ یہ ساری باتیں جب آج بیٹی نے مجھے بتائیں تو میرا دل پسیج گیا۔ اپنی بیٹی کی داستان غم برداشت نہیں کر پایا اور آپ کے پاس چلا آیا۔
جب میں ان سب باتوں سے تنگ آکر اپنے سمدھی کے پاس پہنچا، اور اسے توجہ دینے کی درخواست کی، تو پہلے تو اس نے اپنے بیٹے کی غلطیاں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر جب گالیوں کی ریکارڈنگ سنائی تو اس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میرا بیٹا میرا نافرمان ہے۔ میرا اس کے آگے بس نہیں چلتا۔ بندہ اس سے پوچھے کہ شادی سے پہلے تیرا کتنا بس چلتا تھا۔ آج میری بیٹی کی زندگی خراب ہو چکی ہے تو یہاں آ کر یہ بے بس ہو چکا ہے کیا۔
پھر کہنے لگا حافظ صاحب! یہ صرف میری بیٹی کے ساتھ ہی نہیں ہو رہا۔ یہ ہمارے بیمار معاشرے کے ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے، کہ یہ لوگ دوسروں کی بیٹیوں کو کھلونا سمجھتے ہیں۔ اگر آپ کا بیٹا اپنی ازدواجی زندگی کے حقوق و فرائض پوری طرح ادا نہیں کر سکتا، اگر آپ کا بیٹا نشہ کرتا ہے، اگر آپ کا بیٹا بیوی بچوں کی کفالت نہیں کرسکتا، اگر وہ بڑوں کی عزت نہیں کرتا، اگر اس کا چال چلن ٹھیک نہیں ہے، اگر وہ آپ کا نافرمان ہے، اگر وہ کسی کی ماں بہن کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ آپ کو یقین بھی ہے کہ وہ کسی کی بیٹی کی زندگی خراب کرے گا، تو پھر بھی آپ اپنے بیٹے کے ساتھ کسی عالمہ کا رشتہ کر دیتے ہیں۔ بیٹی کے والدین کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ حافظ یار میں کس کے آگے روؤں۔ حال دل کس کو سناؤں۔ کس سے انصاف مانگوں، کون سی زنجیر ہلاؤں۔
آپ کے پاس تو بس میں اپنا بوجھ ہلکا کرنے آیا ہوں۔ مجھے پتا ہے مدد تو آپ بھی نہیں کر سکتے۔ مگر میرا دکھ تو بانٹ ہی سکتے ہیں نا۔ بات پتا کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سو فیصد لوگ ایسے ہی ہیں اور نہ ہی دیندار طبقے کو ہدف تنقید بنانا چاہتا ہوں۔ اور نہ ہی یہ کہ سارے داماد ایسے ہی کمینے ہوتے ہیں۔
مقصد صرف اور صرف ایک بیمار معا شرے کی توجہ اس مسئلہ کی جانب مبذول کروانا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ کی آواز بننا ہے جو آئے دن اس ظلم کی بھینٹ چڑھتا ہے۔ اس طبقے کی زندگی کی نہ ختم ہو نے والی سیاہ رات شروع ہو جاتی ہے مگر ان کی ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ستم تو یہ ہے کہ معاشرے کے بعض افراد اسے جائز سمجھتے ہیں۔