Home / آرٹیکلز / غریب زادہ

غریب زادہ

وہ ساری زندگی غربت میں رہا غریب گھر میں پیدا ہوا 6 بہنوں کا اکیلا بھائی تھا غریبی اتنی تھی کے مشکل سے دو جماعتیں ہی پڑھ سکا تھا جب 10 سال کا ہوا تو باپ چل بسا 6 بہنیں اور ماں کی ذمہ داری اس کے کندھوں پہ آگئی اب کون سہارا دیتا ہے باپ کے سوا کون کسی کے منہ میں نوالہ دیتا ہے یہاں تو سب چھینتے ہیں چاچا تایا سب دور ہونے لگے کون 6 لڑکیوں کو بیاہے گا وہ 10 سال کی عمر میں زمانے کی سرد ہوائیں برداشت کرنے لگا مزدوری کرنا اپنے سے زیادہ کام کرنے لگا دو وقت کی روٹی کمانے لگا اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگا وہ بہت محنتی لڑکا تھا بہت مشکلات کا سامنا رہا دن رات کی محنت پہ جمع پونجی پہ اپنی بہنوں کی شادی کرنے لگا 20 سال کی عمر میں ماں بھی چل بسی اکیلا چھوڑ گئی بے سہارا ہو گیا بہنیں بھی اپنے گھروں میں جا بسی تھیں ہر گھر کی مجبوری ہوتی ہے کبھی کبھار بہنیں ملنے آ جایا کرتی تھی وہ دن رات کا تھکا ہارا گھر کو آتا پہلے کبھی بہن کبھی ماں کھانا بنا دیتی تھی انتظار کرتی تھی لیٹ ہونے پہ فکریں تھی ماں دروازے پہ نظریں جمائے بیٹھی رہتی تھی کب میرا شیر گھر آئے لیکن اب کون تھا فکر کرنے والا کون تھا سینے لگانے والا کون تھا پیار سے کہنے والا بیٹا کھانا کھایا بیٹا تھک جاتے ہو نا مزدوری کرتے ہوئے وہ اکیلا رہ گیا تھا تنہائی کاٹنے لگی اسے وہ تھکا ہارا آتا ہمت ہوتی تو کھانا کھا لیتا ورنہ بے جان جسم لے کر سو جاتا ماں باپ کے بنا بھی کوئی زندگی ہوتی ہے کیا

گھر کی حالت بہت بری تھی کپڑے بکھرے ہوئے صفائی کی تو ٹھیک ورنہ کون آتا تھا اس کے کچے مکان میں بہنوں نے سوچا شادی کروا دیتے ہیں بھائی کی لیکن غریب کی شادی بھی کوئی آسان کام تو نہیں ہوتا نا گھر کام کاج لڑکیوں والے بھی بہت سوال اٹھاتے ہیں غریب کے دامن پہ خیر کسی اللہ والے نے اپنی بیٹی کا رشتہ اس غریب زادے سے کر دیا بیوی گھر آئی تو اس کا کچا مکان جنت میں بدل گیا وہ ٹائم پہ گھر آنے لگا گھر سے خوشبو آنے لگی وہ بیوی بھی جیسے کوئی حور تھی کچے سے مکان کو جنت میں بدل دیا تھا اس نے یہ جو بیویاں ہوتی ہیں نہ یہ حوروں سے کہیں بہت اچھی ہوتی ہیں دونوں میں بہت پیار تھا کبھی بھوک پہ بھی اس کی بیوی نے کوئی شکوہ نہیں کیا تھا وہ ہر قدم پہ اس کے ساتھ رہی اس کی سانس میں سانس لیتی تھی وقت گزرتا گیا خدا نے ان کو بیٹا دیا بہت خوشیاں منائی گئیں اس نے اپنے 3 مہینے کی کمائی لگا کر بیٹے کی پیدائش کی خوشی منائی وہ دن رات گدھے کی طرح کام کرنے لگا خدا نےپھر کرم کیا ایک اور بیٹے کی پیدائش ہوئی اس کے گھر وہ 10 گھنٹے کی جگہ 15 گھنٹے کام کرنے لگا اچھے سکول میں پڑھایا دن رات کی محنت نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی نہ دھوپ چھاوں نہ سرد ہوائیں بس وہ چاہتا تھا اس کے بیٹے غریبی سے نکل کر ایک انسانوں والی زندگی جی سکیں بہت محنت ایک کو اس نے اپنا گھر بیچ کر ڈاکٹری کی تعلیم دلوائی اور دوسرے کو 10 سال کی کمائی دیکر بیرون ملک بیجھا وقت کا تماشہ تھا وقت سکون آیا تو اس کی بیوی کو موت نے آن گھیرا 40 سال تک کا سفر نبھانے والی 40 سال سانس میں سانس لینے والی دکھ سکھ کی ساتھی ہر غم کو چھپانے والی گھر جنت بنانے والی جس کے بنا وہ اب زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا وہ ایک پل بھی نہ لگا اور بچھڑ گئی وہ 60 سال کی عمر میں پہنچ چکا تھا بیوی کے دکھ نے اسے اس قدر توڑا تھا کے اب خاموش سا رہنے لگا تھا ایک بیٹا ڈاکٹر بن چکا تھا دوسرا امریکا جا کر بس چکا تھا وہ مہنے میں ایک بار فون کر کے پوچھ لیتا تھا حال باپ کا

باپ بیوی کے صدمہ سے کہاں باہر نکل پا رہا تھا جب کوئی برسوں ہمسفر رہا ہو نا تو یوں بچھڑنا زندہ لاش بنا دیتا ہے انسان کو دن گزرتے گئے ڈاکٹر بیٹے نے شہر میں اپنا گھر لے لیا پسند کی شادی کر بڑھے باپ نے سوچا آخری زندگی کے لمحات سکون سے گزریں گے وقت سکون تھا تو وہ دنیا چھوڑ گئ اکیلے میں بیٹھا اپنی بیوی کو یاد کر کے بہت رویا کرتا تھا قیامت پہ ایک قیامت اور آنی باقی تھی ابھی بیٹے نے 65 سال کے بوڑھے باپ کا سامان باندھا اور کہنے لگا بابا آو میرے ساتھ باپ پوچھنے لگا بیٹا کہاں جانا ہے شہر میں اپنے گھر میں رہ تو رہے ہیں میرا سامان کیوں باندھا ہے تم نے بیٹا کہنے لگا بابا آپ کار بیٹھیں سب بتاتا ہوں بوڑھا کھانستے ہوئے کار میں بیٹھا اور لڑکا روڈ پہ گاڑی سپیڈ سے چلانے لگا آدھے کے بعد ایک بڑی سی عمارت کے سامنے گاڑی روکی اور باپ کا سامان ایک آدمی کو دیا کہا اندر لے جاو اور بوڑھے باپ کا ہاتھ پکڑا اور جو کانپ رہا تھا کہنے لگا بابا آپ کی بہو اور میں ہم دونوں آسٹریلیا جا رہے ہیں اسلیئے آپ اکیلے گھر میں کیسے رہتے آپ کچھ دن یہاں اولڈ ہوم سنٹر رہیں گے اب بیٹا یہاں کیوں بابا یہاں آپ کی سب بہت اچھے سے دیکھ بال کریں گے باپ کو چھوڑ کر وہاں وہ چلا گیا بوڑھا باپ سمجھ گیا تھا اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ساری زندگی کے دکھ لے کر ساری زندگی کا بوجھ کے کر اپنا گھر بیچ کر زندگی بھر کا سفر کانٹوں پہ چل کر دن رات کی بھوک پیاس گدھے کی طرح کام کرنا سب اس کی نظروں میں سے ایک پل میں گزر جاتا تھا بیٹے 6 ۔۔6 مہینے تک حال تک نہ پوچھنے آتے جب سہارے کی ضروت تھی تو بیٹے دغا کر گئے بیوی بھی چل بسی اکیلے سے سفر کرنے والا پھر تنہائی پہ آ رکا تھا سوچتا تھا سوچتا تھا بیٹے جوان ہوں گے میرا سہارا بنے گے میں بھی اپنی زخمی روح کو کچھ چین کی سانسیں دوں گا لیکن وقت گزرتا گیا وقت آخری تھا موت کی دعائیں مانگنے والے پہ شاید خدا کو ترس آ گیا تھا آخری ہچکی باقی تھی چند سانسوں کا سفر تھا اور وصیت کر رہا تھا کے میرے پیارے بیٹو میرے جگر کے ٹکڑو جب میری میت لینے کے لیئے آو گے تو میری میت کو ایک بار اپنے سینے سے ضرور لگا لینا بہت تھکن ہے میری روح میں بہت درد بھرا سفر طے کیا تھا میں نے میرے بچو میں تمہارا باپ ہوں بدعا نہیں دے سکتا لیکن میرے بچو باپ کے ساتھ ایسا نہیں کرتے مجھے نہیں یاد کے تمہاری ماں کے جانے بعد میں کبھی ٹھیک سے سویا ہوں کبھی پیٹ بھر کے کھانا کھایا ہو بیٹا یہاں تم لوگ چھوڑ کر گئے تھے نا مجھے یہاں کوئی ہمیں نہیں پوچھتا تھا کھانا کھایا ہم بیمار ہوں تو ایک کونے میں پڑے موت کی دعا مانگا کرتے تھے

بیٹا ایک اور بات میری میت کو یہاں سے ہی غسل دے کر قبرستان لے جانا اور میرے مرنے کے بعد طرح طرح کے کھانے بنا کر لوگوں میں نہ بانٹنا میری کوئی تصویر بھی گھر میں نہ سجانا ورنہ تمہارے گھر کی دیواریں بھی تم لوگوں کو معاف نہیں کریں گی بیٹا یہ 105 روپے اور کچھ سکے ہیں سنا ہے اللہ نے تم کو بیٹی دی ہے یہ میرے 105 کا کچھ میری پوتی کو کے دینا تم لوگوں طرح بہت پیاری ہو گی نا

اور ہاں آج ایک دکھ رہ گیا خدا سے مجھے میں اتنی غریبی اور مفلسی میں جی رہا تھا بہت خوش تھا کاش میں بے اولاد ہوتا کم سے کم اپنے گھر کی دہلیز میں اپنی آخری سانسیں گزارتا نہ کے اس اولڈ ہوم سینٹر میں یہ الفاظ تھے کے بوڑھا باپ ہچکی لگی اور عذاب سے سے نکل کر جنت روانہ ہو گیا اور ٹانگ پہ باندھا ہوا پھٹا سا کپڑا اس کے درد کی گواہی دے رہے تھے

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *