گورنر نجم الدین ایوب کافی عمر ہونے تک شادی سے انکار کرتا رہا۔ ایک دن اس کے بھائی اسدالدین شیر کوہ نے اس سے کہا ۔ ” بھائی ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ ” نجم الدین نے جواب دیا ۔ ” میں کسی کو اپنے قابل نہیں سمجھتا. ” یہ سن کر اسدالدین نے کہا ۔ ” میں آپ کے لیے رشتہ مانگوں ؟ ” ” کس کا ؟ ” ” ملک شاہ بن سلطان محمد بن ملک شاہ سلجوقی کی بیٹی کا یا وزیر المک کی بیٹی کا….؟ ” یہ سن کر نجم الدین بولا ۔ ” وہ میرے لائق نہیں ۔۔۔۔۔۔ ” اسدالدین دھک سے رہ گیا ۔ ” پھر کون آپ کے لائق ہوگی ؟ ” نجم الدین نے جواب دیا ۔ ” مجھے ایسی نیک بیوی چاہیے ،جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں لے جائے اور اس سے میرا ایک ایسا بیٹا پیدا ہو ، جس کی وہ بہترین تربیت کرے ، وہ شاہ سوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لے…. ” اسدالدین کو نجم الدین کی بات پسند نہ آئی اور اس نے کہا ۔ ” ایسی لڑکی آپ کو کہاں ملے گی؟ ” نجم الدین نے جواب دیا۔ ” نیت میں خلوص ہو ،
تو اللہ نصیب کرے گا…. ” یہ سن کر اسد الدین خاموشی سے اسے تکنے لگا ۔ ایک دن نجم الدین مسجد میں تکریت کے ایک شیخ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک لڑکی آئی اور پردے کے پیچھے سے ہی شیخ کو آواز دی ۔ شیخ نے لڑکی سے بات کرنے کے لیے نجم الدین سے معذرت کی. نجم الدین سنتا رہا کہ شیخ لڑکی سے کیا کہ رہا ہے. شیخ نے لڑکی سے کہا۔ ” تم نے اس لڑکے کا رشتہ کیوں مسترد کردیا ، جس کو میں نے بھیجا تھا….؟ ” ” اے ہمارے شیخ اور مفتی ! وہ لڑکا واقعی خوب صورت اور رتبے والا تھا ، مگر میرے لائق نہیں تھا شیخ حیرت سے بولا ۔ ” کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔ تم کیا چاہتی ہو ؟” ” شیخ ! مجھے ایک ایسا لڑکا چاہیے ، جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں لے جائے اور اس سے مجھے اللہ ایک ایسا بیٹا دے ، جو شاہسوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لے….
” نجم الدین حیران رہ گیا ، کیوں کہ جو وہ سوچتا تھا ، وہی یہ لڑکی بھی سوچتی تھی ۔ نجم الدین جس نے حکمرانوں اور وزیروں کی بیٹیوں کے رشتے ٹھکرائے تھے ، شیخ سے کہا۔ ” اس لڑکی سے میری شادی کروا دیں…. ” ” یہ محلے کے سب سے فقیر گھرانے کی لڑکی ہے…. ” یہ سن کر نجم الدین نے کہا۔ ” میں یہی چاہتا ہوں . ” پھر نجم الدین نے اس فقیر متقی لڑکی سے شادی کر لی اور اسی سے وہ شاہسوار پیدا ہوا ، جسے دنیا “سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ” کے نام سے جانتی ہے . جنھوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد کروایا….
