Home / آرٹیکلز / ط ل ا ق کیوں ہوئی

ط ل ا ق کیوں ہوئی

(کہانی حقیقت پر مبنی ہے ۔بہت سی بہنیں بہک جاتی ہیں کہانی تھوڑے فرق کے ساتھ سب کی ایک جیسی ہے خدارا سمجھداری سے کام لین اپنے گھر کو خود جنت بنائیں کسی کے بھی بہکاوے میں نا آئیں۔)
پچھلےسال کی بات ہے۔ ایک دوست گول بازار سرگودھا شاپنگ کر رہاتھا __ اُس کی بیٹی کا فون آیا کہ ابو آپکے داماد نے مجھے فارغ کر دیا _علیحدگی د ے دی ہے__فورا آئیں اور مجھے لے جائیں _

بیٹی کی یہ بات سن کر وه دوست بائیک دوڑاتا گھر کو واپس چلا __ان ہی سوچوں میں گم ہو گا , راستے میں چلتی بائیک پر ہارٹ اٹیک ہوا __ بجلی کے پول سے ٹکرایا اور وہیں سڑک پر جان دے دی _

بظاہر یہ بات اتنی سی ہےکہ ہارٹ اٹیک ہوا اور بنده فوت ہوگیا _ وقت مقرر تھا

کوئی بات توتھی جو ایک اچھے بھلے صحت مند آدمی کی اچانک موت کا باعث بنی _ اِس میں کہیں نا کہیں تو انسانی غلطی نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہوگا _

علیحدگی کےکچھ دن بعد میں بچی سے ملا اور پوچھا کہ بی بی تین بچوں کیساتھ خاوند نے جو تمہیں چھوڑ دیا __کیا بات ہوئی تھی _تمہارا فرسٹ کزن بھی تو تھا-

اُس بیٹی نے جو وجہ بتائی وه سمجھ نہیں آئی _ الزامات کی ایک لمبی فہرست تھی لیکن وه صاحبزادی مجھے کہیں بھی یہ نا بتا سکی کہ معاملات کی بہتری کیلئے خود اُس نے کیا کیا _ ؟

ایک بات میں نے بطور خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے ہاتھ میں ڈیڑھ لاکھ والا آئی فون تھا _

مرحوم دوست میرے رشتے دار بھی تھے _ اُنکا سابقہ داماد اعلی تعلیم یافتہ اور ایک محترم ادارے میں سکول ٹیچر ہے ۔چند دن بعد میں بطور خاص اُسے ملنے گیا __ پوچھا کہ جوان تم جو اتنی انتہا پر پہنچے _اپنے بچے تک چھوڑ دیے _کیا تمہیں بچے پیارے نا تھے ہوا کیا تھا کس بات نے تمہیں اتنا مجبور کیا _

وه بولا کہ سر _ میری دو سالیاں ہیں _دونوں اِنتہائی امیر گھروں میں بیاہی ہوئی_ کوٹھیوں کاروں اور نوکر چاکروں والی _

جب بھی میری بیوی اپنی بہنوں کو مل کر آتی _ میرے گھر جھگڑا شروع ہو جاتا _مجھے بات بات پر غریبی کے طعنے ملتے _ میں چالیس ہزار ماہانہ کا ملازم ہوں _ جتنا کر سکتا تھا , اِنتہائی حد تک کیا لیکن اب بات برداشت سے باہر تھی _

اُس نے مزید کہا کہ مجھےاپنی بیوی بہت پیاری تھی _ میرے پاس تین ہزار والا موبائل ہے _بیگم کو میں نے آئی فون لیکر دیا __پھر کار کا مطالبہ ہوا __بنک لون سے کار لیکر دی _ پرانا فرج بیچ کر قسطوں پر فل سائز نیا فرج لیا _ پھر اے سی کا کہا گیا _ اے سی لیکر دیا __ اِس سب کے باوجود طعنے ہی طعنے _ میں اپنی نظر میں ہی حقیر بن چکا تھا_

علیحدگی والے ماه بجلی کا بل تیس ہزار آ گیا _چالیس ہزار کل تنخواه میں سے میں کیا کرتا _ دس ہزارتو صرف ماهانہ دودھ کا بل بنتا تھا _ اُوپر سے بیگم کی فضول کی باتیں _

میں پہلے ہی بیگم کی پچھلی لامحدود خواهشات سے تنگ تھا_ بالکل ناک میں دم آ چکا تھا_ فوری جھگڑا اُس بل پر ہوا__ اور بات اِس انتہا تک پہنچی _

یہ بات کرتے کرتے وه رو پڑا _

ساری بات سن کر میں نے اپنا سر جھکایا _اور گھر واپس آ گیا_اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو __اپنے بیٹوں کو کم از کم خواهشات کیساتھ زنده رہنابتایا _

اس وقت وه علیحدگی یافتہ بیٹی اپنے شادی شده بھائی کے تین مرلہ مکان کے اوپر والے ایک کمرے میں ره رہی ہے__

جب بجلی بند ہو تو اِس کمرے میں بنده ایسے ہوجاتا جیسے بھٹی میں دانے بھنتے ہیں _ نا اوپر واش روم ہےاور نا کچن _ بچے نیچے جائیں تو اُن کی ممانی تھپڑ لگا کر اوپر واپس بھگا دیتی ہے _

گوری چٹی اور سرخ و سفید چھبیس سالہ لڑکی صرف ایک سال میں پچاس سال کی اماں نظر آتی ہے _سنا ہےکسی پرائیویٹ سکول میں نو دس ہزار کی نوکری بھی شروع کر دی ہے۔۔

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *