Home / آرٹیکلز / نصیب سے ہار گئی میں

نصیب سے ہار گئی میں

آج پہلی رات تھی بستر پہ پھول سجائے گئے تھےنبیلہ اور حسنین کی شادی ہوئی تھی شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی
نبیلہ بیڈ پہ بیٹھی تھی کمیرہ مین تصاویر بنا رہا تھا وہ کبھی دائیں سر کر رہی کبھی بائیں طرف سب لوگ نئے تھے ہر چہرہ اجنبی تھاحسنین پاس بیٹھا تھاسب محلے والے دلہن دیکھنے آئے ہوئے تھے نبیلہ نظریں جھکائے بیٹھی ہوئی تھی رات کے 12 بج چکے تھے وہ بہت تھک چکی تھی بھوک سے برا حال تھاسب چلے گئےدروازہ بند ہوا حسنین نبیلہ کے پاس بیٹھا آپ ایسا کریں چینج کر لیں تھک گئی ہوں گی نبیلہ نے ڈریس چینج کیابھوک سے اس کی حالت غیر ہو رہی تھی لیکن کیا کر سکتے تھے حسنین کو اس کی تھکن سے کیا واسطہ تھا وہ محبت بھری باتیں کہاں کرنا چاہتا تھانبیلہ کو اپنی مردانگی کا روب ڈالتے ہوئے ہوئے بولادیکھو مجھے تماشے اچھے نہیں لگتےمیری باتیں کان کھول کر سن لومیں بار بار یہ باتیں نہیں بولوں گا گھر کے سارے کام تمہارے ذمہ ہیں کھانا بنانے سے لیکر جھاڑو صفائی تک سن رہی ہو نا نبیلہ نے ہاں میں سر ہلایانبیلہ سوچ رہی تھی کوئی گفٹ دے گا کوئی محبت بھری باتیں کرے گا لیکن اس کو نبیلہ سے کام کروانے کی فکر تھی شادی کے دن گزر گئے ہاتھ میں جھاڑو مقدر میں کچن لکھ دیانبیلہ کی جھٹانی ان کی رشتہ دار تھی لیکن یہ غیروں سے بیاہ کر گئی تھینبیلہ کھانا بنانا صاف صفائی کرنا کپڑے برتن سب کامجب تھک کر ٹوٹ جاتی تو رات کو شوہر کے نخرے اٹھاناحسنین بہت روکھے ہوئے لہجے میں بات کرتا تھا نبیلہ سے رات ڈنر ہوا اپنے کمرے میں چلے گئے نبیلہ حسنین کے پاس بیٹھ گئی حسنین شادی کو تین مہینے گزر گئے ہیںآپ مجھے کہیں گھمانے لیکر نہیں گئےحسنین حیرت سے دیکھ رہا تھا نبیلہ کی طرف نبیلہ گھمانے مطلب کہاں جانا ہے تم نے اس نے اتنے روکھے لہجے میں پوچھا کے نبیلہ سہم سی گئی حسنین آپ کیوں اتنے غصے سے بات کرتے ہیں مجھ سے حسنین ٹی وی دیکھتے ہوئے بولا نبیلہ جاو میرے کپڑے استری کرو دماغ نہ خراب کرو یار میراسارا دن کا تھکا ہوا ہوں میں نبیلہ پیروں کی طرف بیٹھ گئی
اچھا چلیں آپ لیٹ جائیں میں آپ کو دبا دیتی ہوں حسنین لیٹ گیا نبیلہ حسنین کا دبانے لگی حسنین سو گیا تھا وہ حسنین کے پیروں کو اپنی گود میں رکھ کر سوچ رہی تھی حسنین میں نے شادی سے پہلے بہت دکھ دیکھے ہیںمجھے محبت چاہئے آپ کا ساتھ چاہیئےآپ کیوں میری آنکھوں سے میرا درد نہیں سمجھ پاتے اصل میں نبیلہ کی ماں نہیں تھی سوتیلی ماں کے ساتھ جوان ہوئی اور سوتیلی مائیں کیا سلوک کرتی ہیں یہ مجھے لکھنے کی ضروت نہیں ہے نبیلہ نے بہت درد سہہ تھا سوتیلی ماں کے ہاتھوں یہاں ایک ظلم یہ بھی تو کیا گیا تھا نبیلہ 20 سال۔کی تھی اور حسنین 36 سال کاجیسے نبیلہ سے جان چھڑانی تھی ان لوگوں نے وہ قدموں کے ساتھ لپٹی ہوئی اپنے ہمسفر سے احساس کی بھیک سی مانگ رہی تھی صبح وہ فجر کہ نماز سے پہلے جاگ جاتی ناشتہ بنانا سب کے لیئے اس کا ذمہ تھاوہ اہنا درد کسی پہ عیاں نہ ہونے دیتی وہ بس اپنے گھر میں آباد ہونا چاہتی تھی حسنین کا ساتھ اسے چاہیے تھا بس اکثر کبھی تھکن کی وجہ سے برتن نہ دھو سکتی یا جھاڑو ٹائم پہ نہ لگا پاتی تو ساس اسے لاکھوں باتیں سناتی وہ اپنے لبوں کو سی کر ہر طعنہ برداشت کر جاتی تھی حسنین مجھے ہر مہینے 5 ہزار دے دیا کریں نا حسنین نے زہر آلود نگاہوں سے دیکھا نبیلہ کی طرف خیر ہے نا 5 ہزار کیوں چاہیے تم کو نبیلہ نے بڑے پیار سے جواب دیا حسنین میں عورت ہوں نامیری ضروریات ہوتی ہی پیسے پاس ہوں تو کبھی بازار جاوں تو اپنے لیئے کچھ ضروری چیزیں خرید لیا کروںاب میں آپ کے بھائی سے تو یہ سب باتیں کہہ نہیں سکتی حسنین کو نہ جانے کیوں ایک چڑ سی تھی نبیلہ سے اس نے غصے میں بولا نبیلہ دیکھو میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کے تم۔کو الگ سے دے سکوںجو چاہیے ہو امی سے کہہ دیا کرنا وہ لا دیا کریں گی الگ سے خرچہ چاہیے اس کو نبیلہ حسنین کے پاس بیٹھ گئی حسنین آپ نہ دیں مجھے کچھ میں آپ کے ساتھ خوش ہوںبس آپ مجھ سے پیار سے بات کر لیا
کریںمجھے پیار سے آواز دیا کریں میرا نام پیار سے پکارا کریں قسم خدا کی میں سب کچھ بھول جایا کروں گئ دن بھر کی تھکن وہ پرانے درد سب کچھ بس آپ مجھے محبت سے پکارا کریں حسنین نے وقتی طور مسکرا کر کہا تو پیار سے ہی تو رہتا ہوں تمہارے ساتھ نبیلہ ناز اٹھانے والے لہجے میں بولی حسنین آپ نہیں نا کرتے پیار سے بات مجھ سےلیکن آپ بس غصہ ہی دکھاتے ہیں حسنین یہ دیکھیں کہ میری برتھ ڈے تھی میں نے اپ کا نام اپنے ہاتھ پہ مہندی سے لکھا ہے حسنین جیسے بس بیزار سا ہو رہا تھا اس کی باتوں سےنبیلہ پیار سے باتیں کر رہی تھی حسنین سے لیکن وہ دل ہی دل میں بول رہا تھا کیا پاگل پلے پڑ گئی ہے میرےاس کو کیا کہوں میںنہ جانے کیوں بے رخی کرتا تھا وہ انھوں نے نیا گھر بنا نا تھا گاوں کے لوگ تھے حسنین نے نبیلہ سے کہا نبیلہ آج رات انٹیں آ جائیں گی تم ہماری مدد کرنا انٹیں گھر میں پھینکنی ہیں نبیلہ نے دن بھر گھر کے کام۔کیئے پھر رات کو وہ انٹیں اٹھا اٹھا کر گھر میں پھیکنے لگی رات کے 3 بج گئے تھے کام ختم ہوااس کا جسم درد اور تھکن سے بے جان سا ہو رہا تھا ۔حسنین لیٹ گیانبیلہ پاس گئی حسنین پلیز میرا سر دبا دیں نامجھے بہت درد ہو رہا ہے حسنین نے کروٹ بدلی یار جا و پیناڈول کھا لو مجھ سے دبایا نہیں جاتا وہ بستر پہ لیٹ گئی نہ جانے کیوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگےوہ رو رہی تھی اس کو بہت درد ہو رہا تھا وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر سانس روکنے کی کوشش کر رہی تھی حسنین پاس سویا ہوا تھاوہ درد سے سو نہ سکی فجر کی اذان ہونے لگیکے اس کئ آنکھ لگ گئیوہ سوئی ہی تھی کے ساس گالیاں دے رہی تھی میڈم سوئی ہوئی ہے شرم ہی نہیں ہے ٹائم دیکھوحسنین بھی برہم۔ہوا وہ اٹھی حسنین غصے میں تھا نبیلہ شرم ہے تم کو ٹائم دیکھو امی خود ناشتہ بنا رہی ہے تیری آنکھ ہی نہیں کھلتی نبیلہ کیا کہتی جب کے اب حسنین کو فرق ہی نہیں پڑتا تھا نبیلہ مر رہی ہو یا کسی درد میں ہو وہ خاموش ہوئی کچن میں چلی گئی سارا کام کیا اس کئ حالت کافی خراب تھی اس نے کسی سے کچھ نہ کہا شادی کو 3 سال گزر گئے تھے لیکن اولاد نہیں تھی ان 3 سالوں میں کوئی ایسی سانس نہیں تھی جب کبھی سکون پایا ہو نئے گھر کا کام شروع کیاوہ مزدوروں کی طرح کام۔کرنے لگی دن بھر سب کے لیئے کھانا بناتی پھر کبھی انٹیں اٹھا کر دیتی تو کبھی مٹی اٹھا رہی تھی4 مہینے اس نے مزدوری کی گھر تیار ہوا حسنین کے ساتھ رہتے ہوئے وہ حسنین سے دور تھی حسنین اس سے دور رہنے لگادن کی دوری سے راتوں کی دوریاں بھی بڑھنے لگی تھی اولاد نہ ہونے کے طعنے دینے لگےایک ڈر سا اسے ستانے لگاحسنین تو پہلے ہی اسے دکھ دیتا تھا
لیکن اب اولاد نہ ہونے کے طعنےان دنوں کہیں اس سے چھپ کر حسنین کی دوسری شادی کی باتیں ہونے لگیں وہ سب کے رویے سمجھ رہی تو کچھ تو غلط ہو رہا تھا نبیلہ ایک نوکرانی سے بڑھ کر کچھ نہ تھی وہ لبوں کی سیئے بیٹھی تھی نبیلہ کو ایک خوف تھا کہیں حسنین مجھے دور نہ کر دےلیکن جھٹانی کی چھوٹی بیٹی نے بتایاآنٹی نبیلہ ماما کہہ رہی تھیں حسنین چاچو کی شادی کرنی ہے نئی آنٹی لیکر آنی ہے نبیلہ سمجھ چکی تھی کوئی قیامت ٹوٹنے والی ہےلیکن وہ خاموش تھی حسنین کمرے میں بیٹھا چہرے پہ کریم۔لگا رہا تھانبیلہ پاس گئی آجکل بہت کریم لگا رہے ہیں بڑے سوہنے لگ رہے ہیں آپ، نبیلہ حسنین کے کندھے پہ سر رکھ کر بتا رہی تھی حسنین آپ خوش رہیں ہمیشہ میں نماز پڑھ کر آپ کے لیئے بہت دعائیں مانگا کرتی ہوںآپ کی زندگی کی دعا مانگتی ہوںآپ کے ساتھ ہی تو میرا سب کچھ ہے جیسے وہ ایک درد دل میں چھپا کر خود کو سمجھا رہی ہو کے حسنین مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا اور پھر وہ دن آگیا لڑکی والے حسنین کے گھر آئےساس نے سختی سے کہا کھانا بناو اور اپنے کمرے میں چلی جاو سامنے نہ آنا منحوس وہ اتنی بے رخی سمجھ رہی تھیاس نے شادی کے بعد ایک کام۔سیکھ لیا تھا درد کو چھپانا خاموشی سے رونا اور نے پناہ گلے لیکن شکوہ نہ کرنا وہ واپس پلٹ کر دیکھتی تو سوتیلی ماں تھی جو اسے واپس قبول نہ کرتی سامنے حسنین کی شادی تھی جو کبھی بھی دھکے دے کر نکال سکتا تھاحسنین کا رشتہ طے ہوا کچھ دنوں میں ہی دوسری بیوی کو لے آئے بیاہ کرجس کمرے وہ حسنین کے ساتھ رہتی تھی آج اس کمرے میں حسنین کی بانہوں میں کوئی اور تھی اسے الگ سے ایک کمرہ دے دیاوہ حسرت بھری نگاہ سے دیکھتی رہتی تھی حسنین اپنی دوسری بیوی کو مری گھمانے لے گیا وہ بہت خوش تھالیکن ایک دیمک درد نبیلہ کو کھائے جا رہا تھاگھر کے کام دن بھر کی تھکن رات کی تنہایاں درد بے پناہلاپرواہی نئی دلہن کو سب بہت پیار کرتے تھے لیکن نبیلہ ایک کونے میں پڑی شاہد موت کے قریب آ گئی تھی اور پھر ایک رات وہ کمرے میں سوئی تھی شاہد آج وہ درد نہ برداشت کر پا رہی تھی سر کا درد شدید تھا وہ سر پہ دونوں ہاتھ رکھے چیخنے لگی سب اپنے کمروں میں سو چکے تھےدرد اتنا شدید تھا برداشت نہ کر پائی وہ حسنین کو آوازیں دیتی رہی لیکن حسنین دوسری بیوی کی بانہوں میں سو رہا تھا وہ زمین پہ گر گئی تڑپنے لگی نہ جانے کتنی آوازیں دی تھی اس نے اور آخر وہ سکون کی نیند سو گئی وہ دنیا چھوڑ گئی صبح ساس گالیاں دے رہی تھی کمینی آج بھی نہیں اٹھی ناشتہ بنانے کے لیئے حسنین نے آواز دی امی نبیلہ کو بولو ہمارا ناشتہ ہمارے کمرے میں بیجھ دے ماں نے گالی دی وہ منحوس سوئی ہوئی ہے ابھی تکسونے دو آج اسے کوئی نہ جائے اس کے کمرے میںدوپہر کا وقت ہو رہا تھا سب اپنے کاموں میں مصروف تھے لیکن ابھی تک نبیلہ کمرے سے باہر نہیں آئی تھی آخر ساس کمرے میں گئی دیکھا نبیلہ اوندھے منہ زمیں پہ پڑی تھی ساس نے شور مچا دیا سب اکھٹے ہو گئےدیکھا وہ اکڑ چکی تھیاس کی لاش کو چارپائی پہ ڈالااس کے آنسو ابھی تک آنکھوں میں تھےاچانک سے کیسے مر گئیان لوگوں نے اسے دفنا دیا جنازہ ہوا کوئی آنکھ نہ روئی تھی ایک دن اس کے کمرے کی صفائی کرتی حسنین کی دوسری بیوی نے دیکھا کچھ رپورٹ اور دوائیاں تھی اس کے کمرے میںوہ دیکھ کر حیران ہو گئی اس کو برین ٹیومر تھا نہ جانے کب سے وہ یہ درد سہہ رہی تھی ایک ڈائری بھی لکھ رکھی تھی یہاں وہ اپنے درد لکھا کرتی اس کی ڈائری کے کچھ جملے حسنین مجھ سے روٹھا روٹھا رہتا یے میری طرف دیکھتا ہی نہیں آج میں نے سارا دن مزدوری کی حسنین نے مجھے ٹھنڈا پانی پلایا میں بہت خوش ہوں حسنین کہتا ہے میں بہت اچھی ہوں لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں مجھ سے دور رہتا ہے آج میں اس کے لیئے تیار ہوئی تھی خود کو سنواراتھا لیکن پاگل نے ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا پھر میں ناراض بھی نہیں ہوئی وہ بہت ڈانٹتا ہے کچھ کہوں تو مجھے جان لیوا بیماری ہے لیکن میں حسنین کو نہیں بتاوں گی وہ پریشان ہو جائیں گے ہمارا گھر بن کر تیار ہو گیا میں نے اپنا کمرہ بہت سجایا حسنین کی شادی کر رہے ہیں مجھے گھر سے نکالا تو کہاں جاوں گی میں میرا تو کوئی ہے بھی نہیں بس نوکرانی بن کر مرنے تک یہی رہوں گی حسنین اپنی دلہن سے بہت پیار کرتا ہے اسے برگر لا کر دیامیں نے کہا مجھے بھی لا دو کہتا ہے تم۔برتن دھو جا کر دماغ نہ خراب کرو
میرابھلا میں نے برگر ہی تو مانگا تھا آج صبح سے میری سانس رک رہی ہے ایسے لگ رہا ہے میرا وقت قریب آ گیا کاش حسنین کی بانہوں میں مر سکتی کاش حسنین میرا درد سمجھتا مجھے سینے سے لگاتا میں سکون سے مر جاتی حسنین آپ کبھی میری یہ ڈائری پڑھیں تو خود کو میری موت کا ذمہ دار نہ ٹھرانا بہت پیار کرتی ہوں آپ سے بس نصیب سے ہار گئی ہوں شاید کے میری قمست میں خوشیاں نہیں لکھی اور ہاں پاگل ایک برگر ہی تو تھا کنجوس تم۔مجھے لا دیتے تو کیا ہو جاتا ڈانٹنے کی کیا ضرورت تھی اپنی دوسری بیوی کا خیال رکھنا میں تو نہیں ہوں گی جب آپ کے ہاں اولاد ہوئی نا تو میری قبر پہ ضرور آنا ایک بار تمہاری نبیلہ مجھے بہت درد ہو رہا ہے اب لکھا بھی نہیں جا رہا دل چاہ رہا ہے آپ کے پاس آ جاوں لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کے بعد سب کچھ ادھورا رہ گیا نبیلہ خاموشی سے مر گئی حسنین ڈائری پڑھ کر بہت رویا لیکن اب رونے کا کیا فائدہ تھا وہ بیچاری نہ جانے کتنا روئی تھی اس کی قبر پہ قدموں کی طرف بیٹھ کر معافی مانگنے لگا لیکن اب معافی مانگتا یا کچھ بھی کرتا وہ کہاں لوٹ کر آنے والی تھی ایس نہ جانے کتنی نبیلہ آج بھی ہیں جو اپنے ہمسفر کی بے رخی پہ جی رہی ہیں جو درد سہتی ہیں شکوہ نہیں کرتی۔۔ ارے بے قدرو اپنی ہمسفر کو محبت سے دیکھ ہی لیا کرو خدا کی قسم وہ ہر درد ہر دکھ بھول جاتی ہیں اس سے پہلے کوئی نبیلہ دنیا سے چلی جائے اور آپ کو جب تک سمجھ آئے دیر ہو چکی ہو کے یاد رکھنا قیامت کے دن محشر کو پوچھا جائے گا…!

About admin

Check Also

دو مریض اسپتال میں بستروں پر تھے

دو مریض اسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے تھے ایک شخص بیٹھنے کے قابل تھا،اس …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *