حضرات گرامی قدر! “گائے کی دم تھام لیجئے”
ہمارا تمہارا تو خدا بادشاہ ہے بھیا! مگر کہتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب پہاڑوں کے پار ایک بڑے دیس پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ جیسے اکثر بادشاہ ہو جایا کرتے ہیں اسے بھی یقین تھا کہ وہ زمین کا خدا ہے۔ بادشاہ کے لڑکے تھے چھوٹے چھوٹے دماغوں والے بڑی بڑی آناوں والے ۔ ایسا ہی ایک لڑکا انا کے ہاتھوں مجبور خود کو شہزادہ عالیشان کہلاتا ایک روز وہی شہزادہ شکار کھیلتے کھیلتے پہاڑوں کے علاقے میں چلا گیا۔ وقت کا بھی کوئی علم نہیں جانے کب بدل جائے ۔ اور جو وقت بدل جاتا ہے تو کردار اپنے آپ بدل جاتے ہیں۔ شہزادے کا بھی وقت بدلنے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وقت بدلا اور شہزادہ شکاری سے خود شکار ہوگیا۔ قصہ کچھ یوں ہوا کہ پہاڑوں میں بسنے والی قوم کی کچھ لڑکیاں اپنے بھیڑیں چرا رہیں تھیں ۔ شہزادے نے ان میں سے ایک کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔ حسن تھا تو گویا آسمانی۔ جیسے یہ زمین کی ہو ہی نا۔ شہزادہ چاروں شانے چت مکمل اسیر ہو چکا تھا۔ لیکن حضرات گرامی قدر! غلط نہ سمجھ لیجئے گا۔ شہزادہ دہ حسن کا نہیں اپنی ہوس کا شکار ہوا تھا۔ مصاحب دوڑائے گے تاکہ علم ہو کہ یہ اپسرا ہے کون۔ خبر ملی کہ! شہزادہ عالیشان! یہ یہاں بسنے والی قوم کے سردار کی بیٹی ہے۔ اور اس بستی کی کہانی یہ ہے کہ گو کہ یہ مملکت کے قریب ترین بستی ہے مگر یہ علاقہ آزاد ریاست تصور ہوتا ہے۔ حضور کا اقبال بلند ہو مگر آپ کے والد نے بھی کبھی ان کو نہ چھیڑا۔ وجہ اس کی یہ ٹہری کہ یہ دوست قوم ہے جو بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں ایک مضبوط دفاع مہیا کرتی ہے۔
تو کیوں ان کو خام خواہ چھیڑ کر اپنی مغربی سرحد کو غیر محفوظ کر لیا جائے۔ شہزادہ عشق سے بے حال تھا کم از کم اس کا یہی خیال تھا ۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر شہزادہ عالیشان نے سردار کی بیٹی کا ہاتھ سردار سے مانگ لیا۔ سردار باغیرت بھی تھا اور سیانا بھی ایک جانب جان سے پیاری بیٹی تھی تو دوسری جانب وہ ایک قوم کا سردار بھی تھا۔ اقرار کی صورت میں بیٹی ہاتھ سے جاتی ہیں اور انکار کی صورت میں قوم کو بھگتنا پڑتا۔ اس نے ایک عجب ترکیب نکالی ۔ شہزادہ کو پیغام بھجوایا کہ اسے رشتہ منظور ہے۔ مگر علاقائی خاندانی اور قبائلی روایات کے پیش نظر شہزادہ کو امتحان میں سے گزرنا ہو گا۔امتحان کیا تھا بس گائے کی دم ہی تو تھامنی تھی۔ سردار کے باڑہ میں تین گائیں تھیں تینوں میں سے کسی ایک کی دم تھامنی تھی۔ کھیت کے ایک جانب سے باری باری گائیں بھگائیں جائیں گی۔ اس سے قبل کہ وہ کھیت پار کریں ان کی دم تھامنی ہو گی شہزادہ نے نامہ بر کو سنا اپنے مصاحب کی جانب دیکھا ۔ مصاحب مستقبل میں خود کو وزیر باتدبیر کے عہدہ پر دیکھتا تھا اس لئے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی شہزادہ کی خوش نودی میں مصروف رہتا۔ مصاحب نے آنکھوں سے اشارہ کیا۔ اور شہزادہ نے ہاں کہ دی نامہ بر کے نکلنے کی دیر تھی کہ شہزادہ کے پاس مصاحب بھاگتا ہوا پہنچا۔ انداز سرگوشی کا سا تھا مگر ساتھیوں کو جتانا بھی تھا۔ اس لئے آواز قدرے اونچی رہی۔ گلا کھنگار کر کہنے لگا شہزادہ عالیشان میں تب سے اسی طاق میں تھا کہ آخر یہ لوگ فیصلہ کیا کریں گے۔ مجھے پہلے سے ہی سردار کے فیصلے کی بھنک پڑ گئی تھی اس لئے میں پہلے سے ہی سردار کے مویشی باڑہ کے حالات دیکھ چکا ہوں۔ پہلی گائے انتہائی زور آور ہے جسامت میں بھی خوب ہے اور غصیلی بھی کم نہیں۔ دوسری گائے نسبتا کم زور ہے جسامت میں کم لیکن غصیلی یہ بھی کافی ہے۔ تیسری گائے تو آپ کہ لیجئے بس بچھڑا ہی ہے۔ عمر بھی زیادہ ہے نہ پیٹ میں آنت نہ منہ میں دانت۔ جیسے ہی مقابلہ شروع ہو آپ نے پہلی گائے سے دور ہو جانا ہے اور اسے کھیت سے نکلنے دینا ہے۔ دوسری گائے کو بھی چھیڑنے کی اور تیسری گائے وہ تو سمجھیں ہاتھ کے نیچے ہے۔ بس اس ہاتھ صاف کر لینا ہے اڑتے اڑتے خبر پایہ تخت تک پہنچی ۔ بادشاہ کو
علم ہوا تو شہزادہ کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ شہزادہ عالیشان ولی عہد بھی تھا۔ بادشاہ کو اس سے امیدیں بھی بہت تھیں اور محبت بھی۔ اڑتے اڑتے جب یہ اطلاع صدرالمدرسین تک پہنچی تو اس نے منجھلے شہزادہ کو بلاوا بھیجا۔ منجھلا شہزادہ اپنے اتالیق کی خدمت میں حاضر ہوا مودب اور با ادب جیسے کہ وہ ہمیشہ ہوا کرتا تھا۔ ہمیشہ عاجز رہنا اور ہمہ وقت میسر۔ تم پر ایک بڑی ذمہ داری آنے والی ہے۔ تفصیل کا ابھی موقع نہیں کچھ دن بعد بتاوں گا۔ صدر المدرسین نے کہا شہزادے نے ادب سے سر جھکایا اور لوٹ گیا۔ ادھر پہاڑوں کے اس پار تاریخ مقرر کر دی گئی۔ شہزادہ عالیشان نے صرف دم ہی تو پکڑنا تھی اور وہ بھی سب سے کم زور گائے کی۔ میدان سجا سب کچھ تو پہلے سے ہی طے تھا۔ شہزادہ عالیشان میدان میں اترا اسے علم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ سارا پلان پہلے سے ہی تیار تھا۔ پہلی گائے چھوڑیگی زور آور قد آور جوان جوش سے بھری ہوئی۔ لگتا تھا کہ جیسے زمین ادھیڑ دے گی۔ شرط کے مطابق گائے ایک جانب سے بھاگتی ہوئی نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان پار کر گئی شہزادہ پہلا موقع کھو چکا تھا ۔ لیکن بہت مطمئن تھا۔ کیونکہ اسے پتا تھا کہ کب کیا کرنا ہے۔ دوسری گائے چھوڑی گئی۔ پہلے جیسی طاقتور تو نہ تھی مگر جوش میں کم نہ تھی۔ زمین ادھیڑ تو نہ سکتی تھی مگر روند ضرور سکتی تھی۔ شہزادہ اب بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا دوسری گائے بھی میدان سے نکل گئی اس کے اطمینان میں ذرا بھی فرق نہ آیا۔ شہزادہ دو مواقع کھو چکا تھا تیسری گائے چھوڑی گئی۔ لاغر بوڑھی اور کمزور شہزادہ مطمئن تھا اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی ۔ گائے کی جانب بھاگتے ہوئے گھوڑے سے سیدھا گائے کی کمر پر کود گیا۔ گائے کو سینگھوں سے تھام لیا لیکن شرط ابھی باقی تھی ۔ گائے کی دم پکڑنا تھی۔ جیسے ہی دم پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ ارے یہ کیا گائے کی تو دم تھی ہی نہیں۔ شہزادہ نے آنکھ اٹھا کر کھیت کے اس پار دیکھا جہاں سردار قبیلہ کے باقی معززین کے ساتھ کھڑا تھا۔ گائیوں کے پچھواڑے شہزادہ کی سمت تھے نجانے اس میں ارادہ کا دخل تھا یا نہٰں مگر دونوں گائیوں کی لمبی لمبی دمیں شہزادے کو نطر آ رہیں تھیں شہزادہ شرط ہار چکا تھا۔ وہ ہو گیا تھا جو اس نے سوچا بھی نہ تھا پلانگ میں یہ فیکٹر تو شامل ہی نہیں تھا۔ شہزادہ عالیشان رسوائے زمانہ ہو چکا تھا۔ شرم سے نظریں نہ اٹھتی تھیں۔ سردار کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی بھی بچا لی
اور قوم بھی اب محفوظ تھی۔ سنا ہے شہزادہ کبھی لوٹ کر پھر اپنے دیس نہ آیا کوئی نہیں جانتا وہ کدھر ہے ۔ مگر میں جانتا ہوں وہ کدھر ہے ۔اس سے پہلے کہ میں آپ کو بتاؤں وہ کدھر ہے۔ آئے ذرا پہاڑوں کے اس پار صدر المدارس کی درس گاہ میں مدرس اور چھوٹے شہزادہ کی گفتگو تو سن لیں۔ مدرس بولا میں جانتا تھا کہ اب تم ہی ولی عہد ہو جانتے ہو کیوں۔ اس لئے کہ تمہارا بھائی اپنی ذات کا اسیر تھا مجھے علم تھا کہ وہ اپنی ذات سے بڑھ کر کچھ سوچ نہ سکے گا۔ صرف اپنی ذات سے محبت کرنے والا ہمیشہ آسانیوں کی تلاش میں رہتا تھا ۔ ہر بار خود کو دھوکا دیتا ہے ایک کے بعد ایک بہانہ ۔ حتی کہ عمل کا وقت ہی گزر جاتا۔ اگر یہ واقعی عشق ہوتا تو شہزادہ کوئی موقع ضائع کئے بغیر پہلی ہی بار میدان عمل میں اترا لیکن اس نے آپنی آسانی کے لئے اس قدر انتظار کیا کہ عمل کا وقت ہی گنوا دیا۔ صدر المدرسین نے شہزادہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ شہزادہ عالی مقام عمل کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ شہزادہ نے اجازت لی اور رخصت ہو گیا۔ جانتے ہیں وہ ناکام شہزادہ کہاں ہے ہر وہ شخص جس کے بہانے قوی ہیں وہی شہزادہ تو ہے ورنہ اس کے ارادے قوی ہوتے۔ اور وہ کامیاب ہوتا۔ آپ کے ارد گرد ایسے شہزادے جا بجا بستے ہیں دعا ہے تو اتنی کہ جب آپ آئینہ دیکھیں تو ناکام شہزادہ سے ملاقات نہ ہو۔ اس لئے حضرات گرامی قدر گائے کی دم تھام لیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلی گائے کی دم ہو یا نہ ہو۔ یہ مضمون مصنف طیب اطہر کی زیر تحریر کتاب اپنی مدد آپ سے لیا گیا ہے
