قدیم زمانے میں ایک بادشاہ تھا جن کا نام شہنشاہ ابراھیم زمان تھا نیک سیرت رعایا سے محبت کرنے والے تھے طبیعت میں تھوڑا سخت مزاج تھے
شہنشاہ دربار میں حاضر ہوئے تمام معاملات دیکھنے کے بعد اپنے وزیر سے مخاطب ہوئے اور کہا محمد عمار ہم نے بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کیا کئی
مشکلات دیکھی اب الحمداللہ ہم اپنی سلطنت کو مضبوط بنا چکےہیں شہنشاہ نے اچانک کہاں محمد عمار میرا بیٹا عادل زمان ابھی چھوٹا ہے قریب 7 سال کا اگر مجھے کچھ ہوجائے تو اس کا خیال رکھنا میری بیٹی شام سے واپس روانہ ہوچکی ہے دوپہر تک پہنچ جائے گی وزیر نے کہا ماشاءاللہ شہنشاہ اللہ آپ کو لمبی زندگی دے آپ کے لیے بھی ایک خوشخبری ہے میرا بیٹا کمانڈر اورنگزیب عمار آپ کی سونپی گئی مہم پوری کر کے روانہ ہوچکا ہے کمانڈر اورنگزیب قلعے خیرو عافیت سے پہنچ گئے لیکن شہزادی نہ پہنچی شہنشاہ نے کمانڈر اورنگزیب کو فوراً تلاش کرنے کا حکم دیا کمانڈر اورنگزیب راستے میں ہی تھے اچانک نظر پڑی شہزادی یاسمین پر اپنے ہوش اور دل کھو بیٹھے شہزادی کے سرخ یاقوت الحموی کے مانند ہونٹ ہواؤں میں لہراتی ہوئی زلفیں پرکشش رات کی طرح گہری آنکھیں پانی کی ندی کے پاس کھڑی تھی موسم خزاں زرد پتے چاروں اطراف بکھرے ہوئے تھے ہر طرف شہزادی زلفوں کی خوشبوؤں ہر چیز کو اپنی طرف مائل کررہی تھی کمانڈر اورنگزیب نے کہا شہنشاہ کے حکم سے میں آپ کو لینا آیا ہو شہنشاہ آپ کے منتظر ہیں اچانک دشمنوں کی طرف سے سخت حملہ ہوا سپاہی سب مارے گئے لیکن کمانڈر شہزادی کو کسی طرح بحفاظت جگہ لے گئے رات کو شہزادی چاند کو دیکھ رہی تھی ہر اطراف نور جھلک رہا تھا جنگلی پرندوں کی آوازیں سکون بخش رہی تھی کمانڈر اورنگزیب شہزادی سے مخاطب ہو کر کہا جنگلی چکور چاند کو حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف اڑتا ہے لیکن چاند تک نہیں پہنچ سکتا پھر کوشش کرتا ہے اسطرح رات گزر جاتی ہے حلانکہ چکور خود بہت خوبصورت پرندہ ہے
اسطرح آپ چاند کو پانا چاہتی ہیں لیکن آپ نے خود پر غور فکر نہیں کیا شہزادی نے کہا کیا آپ مجھے اکیلا پا کر متاثر کرنا چاہتے ہیں اورنگزیب نے کہاں گستاخی معاف شہزادی آپ خود تصدیق کر لیں اورنگزیب نے ایک پیالا پانی لیا چاند کے سامنے کھڑے ہوکر شہزادی کو کہاں دیکھئے شہزادی کا عکس پانی میں ایسے نظر آرہا تھا جیسے چاند پانی کے پیالے میں اتر آیا ہوں شہزادی نے اورنگزیب کا شرمیلے انداز میں آنکھ چھپاتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور کہاں میرا بھائی شیزادہ عادل زمان کیسا ہے اسطرح ان کی رات باتوں میں گزر گئی اگلے دن صبح کمانڈر اورنگزیب اور شہزادی نے نماز فجر ادا کی اور فوراً قلعے کی طرف روانہ ہوگئے قلعے پہنچ کر کمانڈر نے شہنشاہ کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا شہنشاہ شدید غصہ ہوئے اور وزیراعظم کو حکم دیا فوراً ارسلان زمان پر حملہ کرو یہ اس کے علاؤہ کوئی نہیں کرسکتا وزیراعظم عمار نے کہاں سلطان ؤہ آپ دشمن ضرور ہے لیکن آپ کا بھائی تحقیات کرنے دیں ہوسکتا ہے کسی اور کا کام ہو شہنشاہ نے کہا ٹھیک ہے جلدی تحقیات کرو آپ سوچ رہے ہوں گے ارسلان زمان کون ہے دراصل ارسلان زمان شہنشاہ ابراھیم زمان کا بڑا بھائی ہے اور اس کی اپنی سلطنتِ ہے اور وہ سلطان براھیم کو مار کر اس کی سلطنت پہ قبضہ کرنا چاہتا ہے ارسلان لومڑی کی طرح چالاک انسان ہے ادھر جب شہنشاہ ارسلان زمان کو نعیم جو بظاہر تو شہنشاہ براھیم کی سلطنت کا امیر تھا لیکن ہے درحقیقت وہ شہنشاہ ارسلان کا خاص بندہ تھا اس نے شہنشاہ ارسلان کو بتایا شہزادی ہاتھ سے نکل گئی ہے آسے وزیراعظم عمار کے بیٹے نے بچایا ہے تو شہنشاہ ارسلان نے کہا بہت خوب نعیم حیرانی سے کیا ہوا شہنشاہ تو شہنشاہ نے نعیم سے کہاں آب ہم ان سے لڑیں گے نہیں بلکہ وہ خود ایک دوسرے کو قتل کریں گے اور ان کی سلطنت ہماری ہوگی تم شہنشاہ براھیم زمان کے قلعے واپس جاؤ میری طرف سے خبر کا انتظار کرو شہنشاہ ابراھیم زمان کی سلطنت مضبوط تو تھی لیکن اندر نعیم جیسے غدار گھس چکے تھے ادھر شہزادی اور کمانڈر اورنگزیب ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے تھے شہزادی نے اورنگزیب سے کہاں آپ جانتے ہیں نکاح کرنا سنت ہے اورنگریب نے جی ہاں شہزادی نے کہاں پھر اپنے والد سے میں بات کرتی ہوں وہ بھی آپ کو پسند کرتے ہیں انشاءاللہ مان جائے گے اورنگریب نے ٹھیک ہے شہزادی اگر ہمارے نصیب میں ہمارا نکاح لکھا ہے تو کوئی روک نہیں سکتا شہزادی نے شہنشاہ ابراھیم سے بات کی شہنشاہ اور وزیراعظم عمار دونوں رضامند جب یہ خبر شہنشاہ ارسلان کو پہنچی تو اس نے غدار نعیم کو خط لکھا جس پر عمل کرتے ہوئے ہوئے نعیم رات کو سلطان ابراھیم کو تنہا پا کر کہا گستاخی معاف ہو شہنشاہ معظم شہنشاہ نے کہاں کیا بات ہے نعیم بولو نعیم نے
کہاں شہنشاہ یہ سلطنت اپ کی ہے پھر آپ کے بیٹے کی ہوگی لیکن اب جبکہ آپ نے اپنی بیٹی کا رشتہ وزیر اعظم عمار کے بیٹے کمانڈر اورنگزیب سے طے کردیا ہے اورنگریب پہلے ہی آپ کی فوج کا کمانڈر ہے سونے پہ سہاگا آپ کی بیٹی کا رشتہ بھی مل گیا ہے مجھے ڈر ہے اورنگزیب آپ کی وفات کے بعد فوج کشی کر کے آپ کے بیٹے کو خدا نہ خواستہ قتل کروا کے آپ کے تخت پہ نہ بیٹھ جائے آپ کو جلد ہی اپنے بیٹے کو اپنا ولی عہد مقرر کرنا ہوگا تاکے سب جان لیں میرے بعد میرا بیٹا شہنشاہ ہوگا شہنشاہ براھیم نے کہاں بات تو ٹھیک ہے صبح شہنشاہ نے شہزادے عادل کو ولی عہد مقرر کردیا اگلے دن نعیم اپنے آقا شہنشاہ ارسلان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہاں کے کام ہوگیا ہے آقا شہنشاہ نے کہاں آب جاو شہنشاہ براھیم کے بیٹے کو مروا دو لیکن مروانا اسطرح کے الزام کمانڈر اورنگزیب پہ ائے نعیم نے امین کہاں اگلے دن موقع دیکھ کر جب اورنگزیب شہزادے کے کمرے کے ساتھ سے گزر رہا تھا نعیم شہزادے عادل کے کمرے میں داخل ہوا اور شہزادے کی سینے پہ وار کیا شہزادہ چیخا چلایا پھر ایک اور ضرب لگائی اور تلوار سینے پہ رکھ کر کھڑکی سے نکل گیا اوز سن کر اورنگزیب اند آیا شہزادہ مرا ہوا تھا اورنگزیب تلوار اٹھا کر دیکھ رہا تھا کس کی ہے ادھر نعیم سپاہی لے کے اگیا اور اورنگزیب اور شہزادے کے فتل کے جرم میں گرفتار کرا دیا شہنشاہ ابراھیم کو جب پتا چلا تو شدید غصے ہوا اور دربار لگایا کہاں تم دونوں باپ بیٹے میرے تخت پہ بیٹھنا چاہتے تھے اسلیے تم لوگوں سے پہلے میری بیٹی کا رشتہ لیا پھر شہزادے کو مروا تاکے تم ہی وارث بنو وہ تو شکر ہے نعیم نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا وزیراعظم عمار کی ایک نہ سنی حکم جاری کیا دو دن بعد بھرے بازار میں کمانڈر اورنگزیب کا سر اتارا جائے گا اور وزیراعظم عمار کو کہاں دفعہ ہوجاو آئندہ میرے سامنے مت آنا اور عمار کی جگہ نعیم کو وزیر اعظم بنا دیا شہنشاہ ارسلان نعیم سے بہت خوش ہوا کہا صرف ایک کام ہمیں اور کرنا ہے اس کے بعد وہ سلطنتِ بھی ہماری ہوگی جاؤ وہ بھی انجام دو ادھر شہزادی رو رہی تھی جانتی تھی اورنگزیب ایسا نہیں کرسکتا اسے پھسایا گیا ہے نعیم جیل اورنگریب کے پاس گیا اور کہا شہزادی کا پیغام لایا ہو دوپہر کو شہزادی جنگل میں ندی کے پاس تمہارا کررہی ہوگی تم نہ گئے تو وہ خودکشی کر لے گی یہ لو جیل کی چابی اور رات کو بھاگ جاؤ ادھر نعیم نے شہزادی سے کہاں جنگل میں ندی کے پاس اورنگزیب تمہارا انتظار کررہا ہوگا ابھی روانہ ہوجائں گھوڑ سواری اور کچھ سپاہی باہر تیار ہیں میں آپ دونوں کے ساتھ ہوں جب دونوں نکل گئے تو رات کو فجر کے ٹائم شور مچ گیا شہنشاہ باہر آیا نعیم سے پوچھا کیا صورتحال ہے نعیم نے بتایا شہنشاہ اورنگزیب نے ہمارے سپاہی مار دیے شہزادی کو اغواہ کر کے لے گیا اور خط چھوڑ گیا ہے جس میں لکھا ہے کے اگر ہمت ہے شہزادی کو چھڑوا لو شہنشاہ براھیم شدید غصہ ہوا اور کہا وہ لعنتی کس طرف گیا نے نعیم نے کہا جنگل کی طرف گیا ہے شہنشاہ نے کہاں فوراً سپاہی تیار کرو ہم بھی جارہے ہیں اورنگزیب جیل سے بھاگنے کے بعد فوراً وہاں اپنے گھر پہنچا اپنے والد وزیراعظم عمار سے ملا اور کہا مجھے شہزادی نے بلایا ہے میں ان سے ملنے جارہا ہوں عمار نے روکا نہ رکا روازنہ ہوگیا کچھ دیر سوچنے کے بعد وزیراعظم بھی عمار کے پیچھے سپاہی لے کے روانہ ہوگیا کے کہی کسی جال میں نہ پھسں جائے شہنشاہ ابراھیم جب ندی کے پاس پہنچا تو وہاں اکیلا اورنگریب بیھٹا تھا شہنشاہ نے فورا غصے سے کہا بیغرت تجھے نہیں چھوڑو گا سپاہیوں کو حکم دیا مار دو بیغرت کو سپاہیوں نے اورنگریب پر حملہ کرنے کے بجائے شہنشاہ کی گردن پر تلوار رکھ لی اور جہانگیر کو بھی قیدی بنا لیا شہنشاہ کو اب سمجھ آئی کے تمام سازشیں اس لعنتی نعیم کی ہیں شہنشاہ نے کہا تم کس کے کتے ہو اور میری بیٹی کہاں ہے بیغرت نعیم خوب ہنسا اور سپاہیوں سے کہاں اس احمق شہنشاہ کی بیٹی لے آؤ شہزادی یاسمین کو لایا گیا اور اپنے والد اور اورنگزیب کے ساتھ بیٹھا دیا نعیم نے سپاہیوں سے حکم دیا ان تینوں کے سر اتار دو ابھی سپاہی حملہ کرنے ہی والے تھے کے وزیراعظم عمار اپنے سپاہیوں کے ساتھ پہنچ گیا زبردست لڑائی ہوئی لڑائی کے دوران شہنشاہ ابرھیم زخمی ہوئے سب مارے گئے نعیم کو زندہ پکڑا نعیم ہنسے لگا اور کہا کوئی فاہدہ نہیں اب میرے آقا شہنشاہ ارسلان تمہارا قلعہ لینے نکل چکے ہوں گے اورنگریب نے غصے سے ضرب لگا کر نعیم کا سر آتار دیا شہنشاہ ابراھیم نے کہاں مجھ سے غلطیاں ہوئی معاف فرما دیں اور میری بیٹی کا خیال رکھنا اور انتقال کر گئے انھیں وہی مدفن کیا اور اورنگزیب نے کہاں ہمیں فوراً نکلنا ہوگا ورنہ قلعہ ہاتھ سے جاتا رہے گا تینوں وہاں پہنچنے وزیر اعظم عمار کمانڈر اورنگزیب اور شہزادی یاسمین قلعے پہنچ کر اورنگزیب نے سب کو مخاطب کر کے کہا شہنشاہ انتقال فرما گئے ہیں ان کی جگہ شہزادی
یاسمین شہنشاہ ہیں تمام وزراء کا اجلاس بلایا گیا سب نے کہا شہنشاہ ارسلان کی فوج بڑی ہے ہمیں ہتھیار ڈال دینے چاہیے اورنگزیب نے کہا نہیں ہمیں اسے قلعے پہنچنے سے پہلے روکنا ہوگا آدھی فوج یہاں رہے گی قلعے میں اور آدھی میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا لہزا سب متفق ہوئے اب ایک طرف شہنشاہ ارسلان کی فوج تھی دوسری طرف کمانڈر اورنگزیب کی کمانڈر کی فوج بہت کم تھی اورنگریب نے ایک منصوبہ بنایا دن کے وقت اپنے سپاہیوں سے کہاں 12 اور 10 گھوڑا کے چھوٹے چھوٹے گروپ بنائیں اور رات کو نکل جائے صبح یہاں آئے ایک کے بعد ایک تاکے دشمن یہ سمجھے کے میری پاس کافی افوج آرہی ہے اسطرح شہنشاہ ارسلان ڈر گیا اور ایک رات اورنگزیب نے ارسلان کی فوج پر حملہ کیا اور عبرتناک شکست دے کر ارسلان کو فتل کردیا فاتح واپس لوٹا شہزادی سے شادی کی شہنشاہ بنا اپنی سلطنت میں عدل وانصاف قائم کیا اور ارسلان کو قتل کرنے کے بعد اس کی سلطنت بھی اپنی سلطنت میں شامل کی شہنشاہ کا ایک بیٹا ہوا اس کا نام عادل رکھا
